ملک کے کسی حصّے میں بھی امن یا استحکام نظر نہیں آتا۔ کہیں دہشت گردی کے زہریلے ناگ بے گناہ انسانوں کو ڈس رہے ہیں اور سیکیوریٹی فورسز کے گھبرو جوان اور خوبرو افسر شہید ہورہے ہیں، کہیں سرحدوں پر آگ برس رہی ہے، کہیں جہلاء کے جتھے پولیس سے برسرِ پیکار ہیں، پنجاب اور اسلام آباد کی سڑکیں اور راستے بند رہے ہیں۔ کئی دن جی ٹی روڈ بند رہی ہے، اس دوران لوگ گھروں میں محصور رہے۔
طلباء تعلیم سے محروم اور مریض دوا سے۔ انتہائی شدید مرض میں مبتلا مریض اسپتالوں تک نہ پہنچنے کے باعث راستوں میں ہی جانیں دے رہے ہیں۔ حکمرانوں، طبقۂ امراء اور احتجاجیوں کو اس عذاب کے اثرات کا اندازہ نہیں کیونکہ انھیں ہر چیز میّسر ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ سڑکیں بند ہونے سے ہر روز لاکھوں گھروں کے کمانے والے افراد کام/ مزدوری پر نہیں جاسکتے، جس کے نتیجے میں ان کے گھروں کے چولہے نہیں جل سکے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ہر درد مند پاکستانی کا دل مضطرب ہے۔
کیا مئی کی فتح کو کسی بدخواہ کی نظر لگ گئی ہے؟ کیا اس کے بعد ہمارے حکمران کوئی بڑے بول تو نہیں بولتے رہے جو خالقِ کائنات کی ناراضگی کا باعث بنے ہوں۔ ابھی چند روز پہلے ایک بزرگ شخصیّت نے مجھے فون کرکے تاکید کی تھی کہ آپ اپنے کالموں میں لکھیں کہ حکومتی شخصیات کے متکبّرانہ بیانات درست نہیں ہیں۔ کائناتوں کے مالک کو صرف عاجزی پسند ہے۔
ملک کے مختلف حصّوں میں برپا بدامنی کے پیچھے یقیناً ملکی اور بیرونی ایجنڈا بھی ہے۔ پرانے دشمنوں کے علاوہ کچھ نئے دشمن بھی اور عالمی طاقتیں بھی ملوّث ہیں مگر کہیں نہ کہیں اس میں ہماری اپنی کوتاہی، نالائقی، ناتجربہ کاری اور بدانتظامی بھی ضرور شامل ہے۔ برادرم نوید چوہدری سینئر اور باخبر صحافی ہیں، تازہ صورتِ حال کے تناظر میں لکھتے ہیں:’’ ہر سال لاہور سے اسلام آباد جانے کا اعلان ہوتا ہے، ماردھاڑ ملتان روڈ پر شروع ہو جاتی ہے۔ جلوس چل پڑتا ہے، ابھی شہر سے باہر نہیں نکلتا کہ ہلاکتوں کی خبریں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔
پولیس کی گاڑیاں قبضے میں لے کر تھانوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ ڈی آئی جی بتاتے ہیں کہ پولیس پر بدترین تشدد کیا گیا، کئی اہلکار اغوا ہو گئے، کسی کا سر پھٹا ہے، کسی کی ٹانگ یا بازو زخمی ہے۔اس دوران کاروبارِ زندگی مفلوج ہوتا ہے، موٹر ویز، شاہراہیں بند، جو جہاں ہے وہیں پھنس جاتا ہے۔ پرائیویٹ گاڑیاں بھی محفوظ نہیں رہتیں، مارکیٹیں اور اسکول بند ہو جاتے ہیں۔ ان واقعات کو عالمی اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کرکے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا تشخص مجروح کیا جاتا ہے۔ پوری قوم خوف اور اذیّت میں مبتلا کر دی جاتی ہے۔
ہر کوئی دوسرے سے پوچھ رہا ہوتا ہے یہ عذاب کب ٹلے گا، جب یہ کارواں سب کچھ روند کر اسلام آباد پہنچتا ہے تو (ماضی کی ) وفاقی حکومت ایک کمیٹی بناتی ہے۔ کچھ نکات طے پاتے ہیں۔ اس پر عمل درآمد ہو نہ ہو، اس دوران جتنا نقصان ہو چکا ہوتا ہے، اس کا ازالہ کوئی نہیں کر سکتا۔ مظاہرین اور حکومتی عمائدین مشترکہ پریس کانفرنس کرکے ہنسی خوشی گھروں کو لوٹ آتے ہیں‘‘۔
جی بالکل، ہنسی خوشی، ایک دوسرے سے جپھّیاں بھی ڈالتے ہیں اور مذاکرات کی ’’کامیابی‘‘ پر مبارکبادیں وصول کی جاتی ہیں اور اس طرح دونوں اطراف سے ہلاک ہونے والوں کے پسماندگان اور عزیز واقرباء کے زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے۔ چوہدری صاحب نے شرافت اور وضعداری سے کام لیا ہے ورنہ وہ یہ بھی پوچھ سکتے تھے کہ کیا امورِ سلطنت چلانے اور احتجاج کرنے کا یہی چلن ہوتا ہے؟ دونوں اطراف کے بندے مروانے اور زخمی کروانے کے بعد ہونے والے مذاکرات پہلے کیوں نہیں کیے جاسکتے۔ موّثر اور ایفی شینٹ حکومت پہلے ہی کسی ممکنہ شرارت، یا بدامنی کی بُو سونگھ لیتی ہے اور حالات خراب ہونے سے پہلے ہی اس کا سدِّباب کرتی ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوسکا؟
جب دنیا بھر میں مظلومینِ غزہ کے لیے لاکھوں کے جلوس نکل رہے تھے، اس وقت تو یہاں کوئی موثر جلوس نہ نکلا اور اب جب کہ بیچارے مظلوم فلسطینیوں کو کچھ ریلیف ملا ہے جس پر وہ خود بھی خوشیاں منا رہے ہیں لہٰذا اِس وقت غزہ کے نام پر ریلی نکالنے یا اسلام آباد میں دھرنا دینے کا تو بالکل ہی کوئی جواز نہ تھا۔ اس بے وقت اور بلاجواز ریلی کے کیا محرّکات تھے؟ اس سلسلے میں بھی طرح طرح کے قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔
اس وقت فلسطین کا کوئی ایشو نہیں تھا، کیونکہ فوری طور پر اہلِ غزہ یہی چاہتے تھے کہ اسرائیل کی فائرنگ رکے (جس سے ہر روز بیسیوں بے گناہ انسان شہید ہورہے تھے) اور غزہ تک پہنچنے والے امدادی ٹرکوں کو وہاں آنے کی اجازت دی جائے۔ اس ضمن میں جو معمولی سا ریلیف ملا ہے مظلومینِ غزہ اس پر خوشی کا اظہار کررہے ہیں کہ اُن پر ہر روز برسنے والی آگ اور بارود کی بارش رک گئی ہے اور امدادی ٹرک بھی خوراک اور دوائیاں لے کر وہاں جانا شروع ہوگئے ہیں، اس لیے اب اس معاہدے پر اطمینان کے بجائے اسلام آباد پہنچنے اور وہاں امریکی ایمبیسی کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان ناقابلِ فہم ہے۔
مرید کے میں ہونے والا تصادم افسوناک ہے، دونوں جانب کی جانوں کے ضیاع پر بہت دکھ ہوا ہے، پولیس کے جوان سال انسپکٹر شہزاد کی شہادت پر دل بڑا دکھی ہے، اس کے معصوم بچوں کے چہروں پر یہی سوال ہے کہ ’’ہمارے ابو کو کیوں مارا گیا ہے؟ ان کا کیا قصور تھا؟‘‘ اس کا کون جواب دے گا۔ دوسری جانب سے ہونے والی ہلاکتوں پر بھی بہت افسوس ہے۔ خون خرابے سے ہر قیمت پر بچنا چاہیے تھا اور بچا جاسکتا تھا۔ بات چیت سے راستہ نکالا جاسکتا تھا، کاش خون خرابہ نہ ہوتا اور انسانی جانیں بچ جاتیں۔ اس وقت جب کہ سرحدوں پر دشمن حملے کررہے ہیں اور آئے روز ہمارے افسر اور جوان شہید ہورہے ہیں، ہمیں اندرونی طور پر امن اور استحکام کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔