مجھے لگتا ہے کہ ان موصوف کو یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ ’’غربت‘‘ہی تو اس ملک ، اس کی حکومتوں اورلیڈروں کاسرمایہ‘ ذریعہ معاش اوروسیلہ ظفر ہے ، آج اگر اس ملک میں سے غربت دورہوجائے تو حکومت کیادھوئے گی، لیڈر کیا نچوڑیں گے اورسرکاری محکمے کیا سکھائیں گے ، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے جلسوںمیں گلے کون پھاڑیں گے ، جلوسوں میں کون اچھلے کودیں گے اوردھرنوں میں کون بیٹھے گا۔اس لیے ’’غربت ‘‘ ہی تو ہماری سب سے بڑی اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی پراڈکس میں سے ایک ہے بلکہ واحد سرمایہ ہے اورذریعہ آمدن ہے بلکہ یوں کہیے کہ غربت ہی تو وہ سرچشمہ ہے جس سے بے شمار چشمے پھوٹنے ہیں۔اورسیاسی پارٹیاں تو پیداوار ہی غربت کی ہوتی ہیں۔
غربت نہ ہوتی تو پارٹی کس بنیاد پر بنتی،یہ سب کرامت روٹی کپڑا اورمکان ہی کی ہے جس نے اس ملک کو اس ’’جمہوری‘‘ شاہی کی ملکیت بنایا بلکہ وہ دوسرا متوازی’’ قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ریاست مدینہ‘تبدیلی آئی رے نظام مصطفی کی قوم پرستی کے نعروںکی پیدائش بھی اسی غربت کی گود میں ہوئی اورہاں یہ جو بانی اوراس کاوژن ہے ، یہ بھی تو اسی کثیرالاولاد ماں کی اولاد ہے جسے غربت کہتے ہیں،
یہ لیڈر لوگ تو بہت اونچے آسمان پر ہیں‘ اس لیے نیچے چیونیٹوں کی دنیا ان کی نظروں سے اوجھل ہے، اس نیچے کی دنیا میں بے نظیر انکم سپورٹس جواب خدا کے فضل سے بی آئی ایس پی ہوگیا ہے اور ماضی میں احساس پروگرام ہو گیا تھا‘ دور بانی میں لنگر خانے اور پناہ گاہیں قائم کر کے نشئیوں کے لیے جو آرام گاہیں بنائی گئیں‘ان کے نتیجے میں کیاکیا برکات پیدا ہورہی ہیں ،کتنے خاندانوں میں مردوں نے کام کرنا چھوڑدیا اور عورتوں نے ’’کام‘‘ شروع کردیا ہے ، مرد آرام سے حقے کے سوٹے لگارہے ہیں ۔یوں پورے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کو نکھٹو بنا دیا گیا ہے۔ظاہر ہے جب مفت میں پیسے مل جائیں ‘لنگر خانے سے روٹی مل جائے اور سونے کے لیے پناہ گاہیں مل جائیں تو پھر مرد کام کیوں کریں گے۔
میرے پڑوس میں ایک خاندان ہے پہلے اچھی خاصی مزدوری کررہا تھا لیکن مالی امدادملنا شروع ہوئی تو اس نے کام چھوڑ کر نشہ کرنا شروع کیا اب ظاہرہے کہ بھیک بھی وہ چیز ہے جوچھٹتی نہیں منہ سے کافر لگی ہوئی۔میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ جس کسی کو بھی مفت خوری کی عادت پڑ جائے تو وہ کام بالکل نہیں کرتا ۔
چنانچہ اوربھی جہاں کہیں ’’سپورٹ‘‘مل سکتا ہے‘آدمی چاہے اسے دسیوں میل پیدل کیوں نہ چلنا پڑے‘تپتی دوپہر میں گھنٹے لائن میں کیوں نہ لگنا پڑے‘وہ وہاںلازمی پہنچے گااور امداد وصول کر کے رہے گا۔ ساتھ ہی بچوں کاپر وڈکشن بھی زوروں پر ہے۔ ایک دن میں نے کہا،کم ازکم یہ بچوں کا پروڈکشن تو کم کردو۔بولا‘ نہیں !کیونکہ سرکاری امداد میں بچے جتنے زیادہ ہو ںپیسے بھی زیادہ ملتے ہیں۔ ادھر خدا کے فصل وکرم سے، حکومتوں کی مہربانیوں سے اور اس، ’’ناہموار ترین‘‘ معاشرے کی برکت سے معاشرہ انتہائی دینداراوررزق حلال سے بھی بھرچکا ہے، اس لیے ’’رشوت‘‘ دینے کاسلسلہ بھی زوروں پرچل رہا ہے۔
یوںرشوت لینے والے بھی امداد میں سے اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں اور مفت خور بھی جو مل جائے وہ صبر شکر کر کے لے لیتے ہیں۔مفت خوروں کی ایک اور قسم بھی منگوں پر مشتمل ہے۔ میرا خیال ہے کہ جو سرکاری افسر اہلکار رشوت لیتے ہیں وہ بھی ایک طرح سے بھیک منگے ہی ہوتے ہیں۔آج کل جس طرح مانگنے والے گاڑیوں کے شیشے کھٹکھٹا کر بڑے روب کے ساتھ بھیک مانگتے ہیں ،سرکاری ملازم بھی سائل سے بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں کہ اتنا نذرانہ دے دو تو تمہارا کام ہو جائے گا ۔اس لیے دیکھا جائے تو پاکستان میں ہر طرف بھکاری ہی بھکاری نظر آتے ہیں۔
امرا نے بھی ایسے بھیک خانے کھولے ہوئے ہیں،جہاںہر ہفتے دس بیس لوگوں کوکھانا کھلایا جاتا ہے‘ ان کی وجہ سے اکثر مزدوروں نے مزدوری ترک کردی ہے اورصبح نکل کر ۔ خاص طورپر خواتین۔ تو دوپہر یاشام کو لدی پھندی آتی ہیںاورمخیر حضرات کے گھر کے دروازوں کے سامنے بیٹھ جاتی ہیں۔درباروں پر بھی ایسے لوگ کثرت سے نظر آتے ہیں۔ کئی خواتین تو بچوں کے ساتھ آتی ہیں اور شاپروں میںکھانا بھر کے گھر لے جاتی ہیں اور پھر پورا گھرانہ بڑے شوق سے اور مزے سے کھاتا ہے۔
ایک مرتبہ ایک ایسی خاتون سے ہم نے پوچھا جس کاشوہر یوکے یعنی برطانیہ میں تھا کہ تمہارا شوہر وہاں کیا کام کرتا ہے ۔ تو بولی۔ ’’الاونس ‘‘ پر ہے ، اسی سے معلوم ہوا کہ ان ممالک میں بے روزگاری الاونس اتنا ہوتا ہے کہ اکثر لوگ چھوٹی موٹی نوکری کرتے ہی نہیں۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد اسی دھندے کو اختیار کیے ہوئے ہے۔ کوئی بیروز گاری الاؤنس لے رہا ہے اور کوئی زیادہ بچوں کی وجہ سے اچھا گھر لے کر بیٹھا ہے۔ایسی صورت میںانھیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
اپنے یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے ، مال حرام کو حلال کرنے والے بھی بہت ہیں ۔ایک جگہ سے نقد مل جاتے ہیں دوسری جگہ سے اجناس ، تیسری جگہ کپڑے، چوتھی جگہ سے علاج ، کیا وہ پاگل ہیں جو مزدوری میں پسینہ بہائیں۔اب آپ ہی انصاف سے کہیں کہ اگر ملک سے غربت دورہوجائے تو کوئی ووٹ ، ضمیر ، ایمان ، یاعصمت بیچے گا ؟ جلسوں جلوسوں ، دھرنوں وغیرہ میں گلاپھاڑ پھاڑ کر زندہ باد مردہ باد کون کرے گا ۔
اس ملک کی اشرافیہ ، سیاست اورایک خاص طبقے کے لیے غربت اتنی ضروری ہے جتنی کسی مرنے والے کو سانس کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لیے جب بھی کوئی لیڈر پاکستان میں غربت ختم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے یا کوئی پارٹی غربت ختم کرنے کے لیے منشور پیش کرتی ہے تو سمجھ لیں کہ غربت ختم نہیں ہو گی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ بڑھے گی کیونکہ اگر غربت ختم ہو گئی تو پھر سب کو کام کرنا پڑے گا۔