یہی خیال اس نئے مضمون کی بنیاد ہے۔ مجھے نہیں معلوم آنے والے زمانے میں انسان کتنا آزاد ہوگا۔ شاید ریاست اور حکومت کے لیے یہ بائیو میٹرک ٹیکنالوجی بہت کارآمد ہو مگر فرد کے لیے اُس کی ذاتی آزادی اور خود مختاری کے لیے اس کا انجام کیا ہوگا، کوئی نہیں جانتا۔ شاید آنے والے دنوں میں ہم اتنے بندھے ہوئے ہوں گے کہ بولنے، سوچنے یا اختلاف کرنے کی گنجائش ہی نہ بچے۔
ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں انسان کی شناخت اُس کے چہرے انگلیوں کے نشانات آنکھوں کی پتلی اور آواز سے جڑی جا رہی ہے۔ ہر شہری کے جسم کا ایک حصہ اب ریاست کے ریکارڈ میں ہے۔ شناختی کارڈ، پاسپورٹ، بینک اکاؤنٹ، سوشل میڈیا، موبائل فون سب ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ حکومتیں اسے ڈیجیٹل ترقی کہتی ہیں مگر دراصل یہ ایک ایسی دیوار ہے جو بتدریج ہمارے گرد اٹھ رہی ہے۔
یورپی یونین میں حال ہی میں ایک قانون منظور ہوا ہے جسے Digital Identity Regulation eIDAS 2.0 کہا جاتا ہے۔ اس قانون کے تحت ہر شہری کے لیے ایک ڈیجیٹل شناختی بٹوے کا نظام بنایا جا رہا ہے جس میں اُس کے مالی، تعلیمی، سرکاری حتیٰ کہ صحت کے تمام ریکارڈ جمع ہوں گے، بظاہر یہ سہولت کے لیے ہے مگر درحقیقت یہ مکمل نگرانی کا آغاز ہے۔ یہ سب ہمیں کسی محفوظ دنیا کا خواب دکھاتے ہیں مگر یہ اس قیمت پر پورا ہو رہا ہے کہ انسان اپنی انفرادی حیثیت کھو رہا ہے۔
ایک لمحے کو رک کر سوچیے اگر ہر شہری کے چہرے حرکات اور ترجیحات کا مکمل ڈیٹا ریاست یا چند بڑی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہو تو آزادی کہاں باقی رہ جاتی ہے؟ کیا ہم اُس وقت بھی اپنے حکمرانوں کے خلاف بول سکیں گے؟ کیا ہم اُس وقت بھی اختلاف کی جرات کریں گے جب ہمارے ہر لفظ ہر جملے اور ہر قدم پہ نظر اور نگرانی ہوگی۔ یہ وہی لمحہ ہے جہاں انسان کی جسمانی قید سے زیادہ خطرناک ایک غیر مرئی قید وجود میں آتی ہے۔ ایسی قید جس میں دیواریں نہیں ہوتیں، قفل نہیں ہوتے مگر قیدی ہر طرف بکھرے ہوتے ہیں۔
ریاست ہمیشہ اپنے وجود کو دوام دینے کے لیے نئی صورتیں تراشتی ہے۔ کبھی مذہب کے نام پرکبھی تحفظِ وطن کے نام پر اور اب ڈیجیٹل تحفظ کے نام پر مگر ہر بار اُس کی اصل خواہش ایک ہی رہتی ہے کنٹرول۔یہ بائیومیٹرک نظام بھی کنٹرول کا ایک نیا ہتھیار ہے۔ اب شناخت محض کاغذ پر لکھی ایک لائن نہیں رہی، یہ ہمارے جسم کا حصہ بن چکی ہے انگلیوں کے نشان چہرے کی بناوٹ آنکھوں کی روشنی سب ریاست کی ملکیت بن رہے ہیں۔ کل تک جو آدمی اپنی زبان سے بولتا تھا، آج وہ اپنی آنکھوں سے شناخت ہوگا۔کل تک جو آدمی اپنی سوچ سے پہچانا جاتا تھا، آج وہ اپنی انگلیوں کے نشان سے جانچا جائے گا اور یہ سب کچھ ترقی کے نام پر ہو رہا ہے۔
یورپ میں شہری تنظیمیں اور ماہرینِ قانون چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ قدم خطرناک ہے۔ ڈیجیٹل شناخت کے نام پر ہر انسان کی نجی زندگی پر ریاستی اور کارپوریٹ اداروں کا قبضہ بڑھ جائے گا مگر حکومتیں اسے نظر انداز کر رہی ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ شفافیت ضروری ہے تحفظ ضروری ہے مگر وہ یہ نہیں بتاتیں کہ شفافیت اور تحفظ کی قیمت کیا ہوگی۔جب ہر چیز ڈیجیٹل ہو جائے گی، تو ایک چھوٹی سی غلطی یا ڈیٹا چوری کسی شہری کو ساری عمر کے لیے نظام سے خارج کرسکتی ہے۔ ایک غلط فائل ایک غلط نشان ایک غلط شناخت اور آپ کا وجود گویا مٹ گیا۔ بینک بند صحت کارڈ ناکارہ پاسپورٹ غیر فعال شناخت ختم۔ یہ وہ لمحہ ہوگا جب انسان ریاست کے رحم و کرم پر ہوگا۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ سب صرف مغرب کا معاملہ نہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افریقہ ہر جگہ بایو میٹرک نظام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ شناختی کارڈ، موبائل سم، بینک اکاؤنٹ، سوشل میڈیا سب میں فنگر پرنٹ فیس اسکین اور آنکھوں کی شناخت لازمی قرار دی جا رہی ہے۔ہماری ریاستیں بھی اب یہی منطق پیش کرتی ہیں، یہ دہشت گردی کے خلاف ضروری ہے، یہ شفاف انتخابات کے لیے ضروری ہے، یہ عوامی مفاد میں ہے۔لیکن جو سوال ابھر رہا ہے وہ یہ ہے کہ جب ریاست ہر شہری کے ڈیٹا کی مالک بن جائے گی تو فرد کہاں جائے گا؟ کیا انسان اپنی نجی زندگی کا حق محفوظ رکھ پائے گا؟
یہ سب کچھ مجھے اُس پرانے زمانے کی یاد دلاتا ہے جب غلاموں کے جسموں پر مالکان اپنے نشان کندہ کیا کرتے تھے، ایک داغ ایک نمبر ایک علامت۔ آج کا زمانہ زیادہ مہذب ہے مگر نشان وہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ اب یہ نشان ہمارے جسم پر نہیں ہمارے ڈیجیٹل وجود پر لگایا جا رہا ہے۔ اب ہر انسان ایک ڈیٹا سیٹ ہے فائلوں میں محفوظ، سرورز میں قید اور الگورتھمز کے رحم پر۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ سب ہماری آسانی کے لیے ہے مگر دراصل یہ آسانی ایک نئے غلامی نظام کی بنیاد رکھ رہی ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب خوفزدہ خیالات ہیں، ترقی کو روکا نہیں جا سکتا مگر سوال یہ نہیں کہ ترقی رکے یا بڑھے۔ سوال یہ ہے کہ ترقی کی سمت کیا ہے؟ کیا ہم ٹیکنالوجی کے مالک ہیں یا اُس کے ماتحت؟ کیا یہ نظام انسان کی خدمت کرے گا یا اُس کو ایک عدد بنا کر اُس کی انفرادیت ختم کر دے گا؟ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ڈیجیٹل شناخت انسان کے لیے ضروری بنا دی گئی ہے، جو اس شناخت سے باہر ہے وہ گویا ریاست کے نقشے سے مٹا ہوا ہے۔ وہ تعلیم، صحت، روزگار یہاں تک کہ اظہارِ رائے کے حق سے بھی محروم ہو سکتا ہے۔ یہی ہے وہ ان سیئن پرِزن ایک غیر مرئی قید جو نہ دیواروں میں بند ہے نہ تالوں میں مگر ہر طرف موجود ہے۔
ایک لمحے کو سوچیے اگر کل کوئی حکومت آ جائے جو اختلاف کو جرم قرار دے تو کیا وہ آپ کے چہرے آواز یا مقام کے ذریعے آپ کو ڈھونڈ نہیں نکالے گی؟ کیا وہ کسی احتجاج کسی جمہوری آواز کسی سچ کو خاموش نہیں کر سکے گی؟ آزادی کا مطلب صرف بولنے کا حق نہیں بلکہ اپنے وجود پر اختیار کا حق بھی ہے۔ جب شناخت ہماری نہیں رہے گی تو آزادی بھی ہماری نہیں رہے گی۔
میں جانتی ہوں کچھ لوگ کہیں گے، یہ خدشے بڑھا چڑھا کر بیان کیے جا رہے ہیں مگر میں اُن سب سے یہی کہوں گی، آزادی کبھی یکدم نہیں چھینی جاتی، وہ آہستہ آہستہ سہولت کے نام پر تحفظ کے وعدے پر اور خوشنمائی کے پردے میں چھن جاتی ہے، آج اگر ہم نے سوال نہیں اٹھایا تو کل شاید ہمیں اجازت ہی نہ ہو کہ کوئی سوال کریں ہم شاید محفوظ ہو جائیں گے مگر آزاد نہیں رہیں گے اور جب انسان محفوظ تو ہو مگر آزاد نہ رہے تو وہ زندہ ضرور ہوتا ہے مگر انسان نہیں رہتا۔