ان کے گاؤں کے قریب سے دریائے چناب گزرتا ہے۔ یہ دریا علاقے میں پینے کے پانی کی فراہمی کے ساتھ زمینوں کو سیراب کرتا ہے مگرکلائمیٹ چینج کی بناء پر بھارتی ریاستوں ہریانہ، پنجاب، یو پی اور مدھیہ پردیش میں طوفانی بارشیں ہوئیں ، یہاں سے آنے والے دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس میں طغیانی آئی، یوں ان دریاؤں کے پانی نے پنجاب میں زبردست تباہی مچائی۔ سیلاب نے باقرشافی کے گاؤں کا بھی رخ کیا اور پورا علاقہ پانی میں ڈوب گیا۔ شافی کا گھر بھی تباہ ہوگیا، سیلابی پانی سے اس کی جنت اجڑگئی مگر اسے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ظالم پانی اس کی کتابیں بھی بہا کر لے گیا۔
اس کے پاس کاغذ تک نہ بچا مگر کسی نے شافی کو کچھ کاغذ کے ٹکڑے دے دیے۔ نوجوان صحافی جودت ندیم سید ملتان سے شافی کے گاؤں پہنچنے میں کامیاب ہوئے، شافی اپنے مکان کے ڈھیر پر کچھ لکھ رہے تھے۔ اس کے گھر والے کھلے آسمان کے نیچے کسی مدد کا انتظار کر رہے تھے۔ شافی نے جودت کو کچھ شعر سنائے اور کہا کہ کوئی حکومتی ایجنسی ان کی مدد کو نہیں آئی۔
سیلاب کی تباہی سے صرف شافی ہی نہیں بلکہ لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں، ان متاثرین میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ خواتین زیادہ مشکلات کا شکار ہیں۔ بی بی سی اردو ویب سائٹ پر وائرل ہونے والی ایک وڈیو کے مطابق سیلاب میں کپاس کی فصل پانی میں تباہ ہوگئی۔ سیلاب سے کپاس کی فصل کے علاقے میں چاول اور سبزیوں کی فصلیں بھی تباہ ہوئیں۔ مگر کپاس کی فصل کی تباہی سے وہ عورتیں براہِ راست متاثر ہوئیں جو کپاس چننے کا کام کرتی ہیں ۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ زراعت ہے۔ اس رپورٹ میں فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق کپاس کے کھیتوں میں 68 فیصد مزدور خواتین ہیں۔ ان خواتین کے پاس ان زمینوں کی ملکیت نہیں ہے اور خواتین روزانہ اجرت کی بنیاد پرکام کرتی ہیں۔ ان خواتین کو روزانہ چند سو روپے مل جاتے ہیں۔ ایک صحافی نے ان خواتین سے انٹرویوزکیے جو کپاس چننے کا کام کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک اقبال بی بی نے اس رپورٹرکو بتایا کہ سیلاب نے ان کی زندگی اور آمدنی دونوں کو تباہ کیا ہے۔
اقبال بی بی نے بتایا کہ بہت سی خواتین نے زمین تیارکرنے،کھاد خریدنے اور روزمرہ کے اخراجات کے لیے قرض لیا ہوا تھا۔ علاقہ کے سود خور تاجر بھاری سود پر قرضہ دیتے ہیں۔ ہر سال جب فصل فروخت ہوجاتی تھی تو خواتین اپنا قرض اتارتی تھیں مگر سیلاب نے فصلوں کو تو تباہ کیا مگر قرض کی اصل رقم کے ساتھ سود کی بھاری رقم کی ادائیگی کیسے ہوگی، یہ سوال ان خواتین کو موت کے راستے کی طرف راغب کررہا ہے۔
ایک اور خاتون شاہین نے رپورٹرکو بتایا تھا کہ دل دکھتا ہے، جن کھیتوں پر ہم نے ساری محنت کی، آج وہاں ہمارے لیے کچھ نہیں بچا۔ زمین تیارکرنے کے لیے کچھ خواتین کو بینکوں سے قرض ضرور مل گیا تھا مگر اکثریت نے بیوپاریوں سے قرض لیا تھا، یہ قرض سود کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ یہ ایسا چکر ہے کہ ساری زندگی ختم نہیں ہوگا۔
محکمہ زراعت پنجاب کے اہلکاروں کا خیال تھا کہ اس دفعہ وسیب کے علاقے میں کپاس کی بھرپور فصل ہوگی۔ یہ اندازہ خاصی حد تک درست تھا مگر سیلابی پانی نے سب کچھ برباد کردیا۔ شاہین نے تو یہ تک کہا کہ اس کے پاس تو ٹرالی کا کرایہ دینے کے لیے بھی پیسے نہیں بچے۔ کچھ خواتین نے بچی کچی زمینوں کی تلاش شروع کردی ہے، جہاں انھیں کوئی کام مل سکے۔ پنجاب حکومت فوجی جوانوں کی نگرانی میں متاثرہ علاقے کا سروے کروا رہی ہے اور یہ سروے مکمل ہونے والا ہے۔
جودت سید کا کہنا ہے کہ علاقہ کے پٹواری اپنی مرضی سے متاثرہ افراد کے نقصان کا اندراج کرتے ہیں۔ بعض علاقوں میں لوگوں کو پٹواریوں کے رویے پر بھی شکایات ہیں مگر حکومت پنجاب کے اعلان کے مطابق سیلاب میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کو معاوضہ ملے گا۔ اسی طرح جس کا مکان تباہ ہوا یا اس کے مکان کو نقصان ہوا ہے تو انھیں بھی معاوضہ مل جائے گا۔ ان ہزاروں بے گھر مردوں کا خاص طور پر عورتوں کا کیا ہوگا، جن کے نام نہ تو مکان تھا نہ زمین تھی۔ اس علاقے میں امدادی کام کرنے والے غیر سرکاری تنظیموں کے ارکان کا کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پرکام کرنے والی خواتین کو فوری طور پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فوری طور پر رقم مل سکتی ہے۔
اس مقصد کے لیے اس پروگرام کے کمپیوٹرکے پروگرام میں معمولی تبدیلی کرنی پڑتی مگر پنجاب کی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو نامعلوم وجوہات (سیاسی وجوہات) کی بناء پر سیلاب زدگان کی مدد کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 9 ملین عورتیں مستفید ہوتی ہیں اور ہر 3 ماہ بعد 13 ہزار روپے کی رقم، ان کے اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے غریب خواتین کو ملتی ہے۔ اگرچہ اس پروگرام سے بہت سے افسروں نے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے مگر پھر بھی یہ خواتین کی بہبود کا ایک بہت بڑا پروگرام ہے۔ پیپلز پارٹی کے حلقوں کا کہنا ہے کہ پنجاب کی حکومت نے سیاسی وجوہات کی بناء پر اس پروگرام کو سیلاب زدگان کی مدد کے لیے استعمال نہیں کیا جو ایک افسوس ناک امر ہے۔
کپاس کی فصل سے ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا پہیہ چلتا ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری سالانہ 20 ارب ڈالرکی مصنوعات برآمد کرتی ہے۔ ساری دنیا میں Corporate Social Responsibility (CSR) کے تحت صنعتی ادارے ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو اس انڈسٹری کے لیے کسی بھی طرح کا کام کرتے ہوں۔ CSR کے تحت انڈسٹریز عام آدمی کی بہبود کے لیے بہت سے منصوبے بناتی ہیں اور ان پر عملدرآمد کرتی ہیں۔ حکومتیں اس بناء پر انڈسٹریزکو ٹیکس میں رعایت دیتی ہیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بڑے بڑے نام ہیں۔
ان میں سے کچھ برسر اقتدار حکومتوں میں بھی شامل ہیں اور کچھ حزب اختلاف کی جماعتوں میں شامل ہیں، یوں ان سیاست دانوں کی زیادہ ذمے داری بن جاتی ہے ۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی یہ ذمے داری ہے کہ ان لوگوں کو اتنی امداد دی جائے کہ وہ نہ صرف اپنے قرضے اتار سکیں بلکہ اگلی فصل تک گھرکا چولہا بھی جلاسکیں۔ انسانی حقوق کی تحریک سے وابستہ ایک کارکن کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب میں سیلاب نے جہاں زمین زدہ کسانوں کو متاثرکیا ہے، وہیں بے زمین کسان جو اسٹیٹ لینڈ پرکاشت کرکے اپنا گزارا کرتے تھے، وہ بھی اپنی کاشت سے محروم ہوگئے ہیں۔
ایسے کسانوں کا کہیں کوئی ریکارڈ موجود نہ ہے اور نہ ہی وہ کسی اسکیم میں شامل ہیں۔ ایسے کسان جنھوں نے ٹھیکوں پر زمین کاشت کی ہوئی تھی ان کو اب اپنے زمینداروں کو ٹھیکہ دینے میں مشکلات کا سامنا ہے، جب کہ حکومت پنجاب کی جانب سے 20 ہزار روپے فی ایکڑ امداد دی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ ایک ایکڑگندم کی کاشت میں 1 لاکھ پچاس ہزار روپے تک خرچہ آتا ہے۔
سیلابی علاقوں میں زمین لیول کرنا اور پانی سوکھنے تک انتظار اس قیمت کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سیلاب کی صورتحال سے نمٹنے اور امدادی کاموں کو یقینی بنانے کے لیے نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام ضروری ہے۔
پنجاب کی حکومت سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے جو بھی منصوبہ بنائے وہ قابل عمل ہوسکتا ہے مگر اس کا حقیقی فائدہ اس وقت ہوگا جب کونسلر اور یونین کونسل کے اراکین ان کاموں میں مدد کریں۔ الیکشن کمیشن نے آیندہ دسمبر میں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔ اس دفعہ یہ انتخابات ضرور ہونے چاہئیں اور پنجاب میں مکمل طور پر نچلی سطح تک اختیارات کا جدید بلدیاتی نظام قائم ہونا چاہیے تاکہ یہ نظام دیگر صوبوں کے لیے بھی ایک ماڈل بن جائے۔ کلائمیٹ چینج کی بناء پر ہر سال سیلاب آسکتے ہیں۔ ایسی منصوبہ بندی ہونی چاہیے کہ آیندہ یہ سیلاب رحمت بن جائیں۔