جنگ بندی کے بعد غزہ میں زندگی کی جدوجہد، پانی اور امداد کی شدید قلت برقرار

اقوامِ متحدہ کے انسانی ہمدردی کے امور کے نائب سربراہ ٹام فلیچر نے تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے پر مکمل عملدرآمد کریں، ان کے مطابق فلسطینی، اسرائیلی اور پورے خطے کے لوگ چاہتے ہیں کہ یہ امن قائم رہے۔

الجزیرہ کے مطابق انہوں نے کہا کہ اس ہفتے طویل رکاوٹوں کے بعد امدادی سرگرمیوں کا آغاز ممکن ہوا اور خوراک، ادویات، ایندھن، پانی، گیس اور خیمے ضرورت مندوں تک پہنچائے گئے۔ تاہم منگل کو عملدرآمد میں مزید رکاوٹیں سامنے آئیں۔

ٹام فلیچر نے خبردار کیا کہ اب اصل امتحان یہ ہے کہ آیا ان رکاوٹوں کے باوجود وہ پیش رفت جاری رکھی جا سکتی ہے جس پر صدر ٹرمپ، اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور دیگر عالمی رہنما زور دے رہے ہیں۔

ادھر اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کو اطلاع دی ہے کہ وہ بدھ سے روزانہ صرف 300 امدادی ٹرک غزہ جانے دے گا جو پہلے طے شدہ تعداد کا نصف ہے۔

فلیچر نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ ہفتہ وار ہزاروں ٹرکوں کی شکل میں امداد کے بڑے پیمانے پر داخلے کی اجازت دے اور کہا کہ مزید بارڈر کراسنگز کھولنا اور عملی سطح پر مسائل کے حل کی کوشش ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔

رائٹرز کے مطابق اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ رفح بارڈر کراسنگ کو دوبارہ کھولے گا تاکہ غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل ممکن ہو سکے، تاہم اس عمل کو سیکیورٹی کلیئرنس سے مشروط رکھا گیا ہے۔

رفح کراسنگ کے دوبارہ کھلنے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب حماس نے مزید لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کی ہیں، جس سے امن معاہدے کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوششیں تیز ہوئی ہیں۔

دوسری جانب ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق، ایک سیکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ رفح کراسنگ آج نہیں کھولی جائے گی۔ کراسنگ کھولنے کے فیصلے اور اس پر عملدرآمد میں تاخیر ہو رہی ہے۔

ادھر امدادی سامان کی ترسیل دیگر راستوں سے جاری ہے، جن کے ذریعے خوراک، ادویات، ایندھن اور تعمیراتی سامان غزہ پہنچایا جا رہا ہے۔

غزہ میں جنگ بندی کے دوران اپنے خاندان کے ساتھ واپس آنے والے 10 سالہ احمد نے بتایا کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے کھانا لینے کمیونٹی کچن گیا، جہاں لوگوں کا بڑا ہجوم موجود تھا۔

بچوں کے حقوق کی تنظیم ڈیفنس فار چِلڈرن انٹرنیشنل-فلسطین کے مطابق احمد کا کہنا ہے کہ جب دال تقسیم کی جا رہی تھی تو بھیڑ کے دوران برتن اس کے سر سے ٹکرا گیا اور گرم دال اس کی پیٹھ پر گر گئی، جس سے وہ جھلس گیا۔

احمد نے کہا کہ جگہ لوگوں سے بھری ہوئی تھی… لیکن میرے پاس کھانا لینے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ میرا جسم بھوک سے نڈھال ہو چکا ہے۔

غزہ سٹی میں واپس آنے والے لوگوں کے لیے حالات اب بھی نہایت کٹھن ہیں۔ بیشتر شہری اپنے گھروں کی حالت دیکھنے آ رہے ہیں تاکہ معلوم کر سکیں کہ وہاں پانی، خوراک اور زندگی کی بنیادی ضروریات باقی ہیں یا نہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق سب سے سنگین مسئلہ پانی کی کمی ہے۔ متاثرہ خاندان بار بار پوچھ رہے ہیں کہ علاقے میں پانی کب آئے گا، یا پانی کے ٹینکر کب پہنچیں گے۔ گزشتہ سات دنوں میں صرف چند ٹرک ہی یہاں پہنچ سکے ہیں، جو واپس آنے والے ہزاروں افراد کے لیے بالکل ناکافی ہیں۔

بیشتر لوگ میلوں پیدل چل کر اپنے علاقوں تک پہنچتے ہیں، مگر وہاں نہ پانی ملتا ہے نہ بنیادی سہولتیں۔ ہر طرف لوگ ہاتھوں میں بوتلیں، ڈبے اور برتن لیے پانی کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔

Similar Posts