سپر ٹیکس سرمایہ کاروں کے لیے سزا کے طور پر لاگو کیا گیا، سپریم کورٹ میں وکیل کے دلائل

سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ سرمایہ کاروں کے لیے سزا کے طور پر لاگو کیا گیا ہے۔

جسٹس امین الدین  کی سربراہی میں سپریم کورٹ  کے 5 رکنی آئینی بینچ  نے سپر ٹیکس کیس کی سماعت کی، جس میں  مختلف کمپنیوں کے وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل مکمل کیے۔

دوران سماعت  جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سپر ٹیکس میں مقررہ رقم لکھی ہوئی کہ کتنے پر ٹیکس لگے گا ۔ کمپنیز اپنے اپنے حصے کا ٹیکس دیں گی جو ان پر بنتا ہوگا ۔ آپ جو کہہ رہے اس سے یہ لگ رہا کہ جن پر ٹیکس نہیں لگایا گیا ان پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے ۔

وکیل فروغ نسیم  نے جواب دیا کہ شاید میں اپنے دلائل ٹھیک سے بریف نہیں کر پایا ۔ جسٹس جمال مندوخیل نے فروغ نسیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ کسی کے ساتھ فرق نہ ہو ۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فائنل ٹیکس رجیم میں جو ٹیکس لگ گیا، اس کے بعد اور نہیں لگ سکتا ۔ سپر ٹیکس الگ کیٹیگری میں لگایا گیا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا اور دوبارہ سماعت شروع ہونے پر پاکستان ٹوبیکو کمپنی کے وکیل عزیز نشتر اور نجی کمپنی کے وکیل اعجاز احمد زاہد نے اپنے دلائل شروع کیے۔

وکیل عزیز نشتر نے اپنے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 18 مجھے کاروبار کی اجازت دیتا ہے تو اسی طرح ریاست کو بھی کہتا ہے مجھے کاروبار کا ماحول دے۔ ریاست اور پھر قانون سازی نے مجھے کاروبار کا ماحول نہیں دیا جو آئین مجھے دینے کا کہتا ہے ۔ ٹیکس کی بدترین قسم اس وقت پاکستان میں ہے ۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ سازگار ماحول کیسے پیدا کرنا چاہیے ؟ ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے ؟۔ وکیل عزیز نشتر نے جواب دیا کہ مجھے منافع نہیں ہورہا، تب بھی میں ٹیکس دے رہا ہوں ۔ آج کے اس دور میں ریڑھی والے کو بھی جیو ٹیگ لگایا جا سکتا ہے ۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ حکومت کو فوری ضرورت پڑی تو اس نے سپر ٹیکس لگا دیا ہے ، جس پر وکیل عزیز نشتر نے کہا کہ انویسٹرز اور کمانے  والوں کے لیے سزا کے طور پر سپر ٹیکس لاگو کیا گیا ہے۔

وکیل اعجاز احمد نے کہا کہ فنانس بل آرٹیکل 73 کے تقاضے پورے کیے بغیر پاس ہوا ۔ اس وقت کے وفاقی وزیر نے بیان دیا کہ 300 ملین پر 2 فیصد ٹیکس لگے گا۔

وکیل عزیز نشتر نے کہا کہ ایف بی آر کو ٹیکس ریٹ کو کم جب کہ پرفارمنس پر زیادہ فوکس کرنا چاہیے ۔

وکیل اعجاز احمد زاہد نے کہا کہ 10 جون کو بجٹ پیش کیا جاتا ہے اس سے پہلے پالیسی اسٹیٹمنٹ لاگو نہیں ہو سکتی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو ڈالر اتنے کا ہی مل رہا ہے جتنے کا پہلے مل رہا تھا، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ اگر بین الاقوامی سطح پر انرجی کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو پاکستان میں بھی بڑھیں گی۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت کل تک کے  لیے ملتوی کردی۔

Similar Posts