بھارت میں انتہاپسندوں کے ہاتھوں بابری مسجد کی شہادت کو 33 سال بیت گئے

بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں بابری مسجد کی شہادت کو 33 سال بیت گئے۔

6دسمبر 1992 کو اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں انتہا پسند ہندوؤں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔ حملہ کرنے والوں کا تعلق بھارتیہ جنتا پارٹی، راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ، وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل سے تھا۔ انتہا پسندوں نے کلہاڑیوں، ہتھوڑوں اور دیگر اوزاروں سے بابری مسجد کو نشانہ بنایا۔

بابری مسجد کی شہادت کے دوران مسلمانوں کی طرف سے شدید احتجاج اور مزاحمت بھی کی گئی یہاں تک کہ فسادات کے نتیجے میں 2 ہزار سے زائد مسلمان شہید جب کہ ہزاروں زخمی ہوگئے تھے

بی جے پی رہنما ایل کے ایڈوانی اور منوہر جوشی نے انتہا پسند ہندوؤں کو بابری مسجد شہید کرنے کے لئے اشتعال دلایا تھا۔ بعد ازاں 2009 میں جسٹس منموہن سنگھ کی تحقیقاتی رپورٹ میں بی جے پی رہنماؤں سمیت 68 لوگوں کو موردالزام ٹھہرایا گیا۔

سربراہ بھارتی انٹیلی جنس بیورو ملوئے کرشنا کے مطابق بابری مسجد کی شہادت کا منصوبہ بی جے پی، راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد نے 10 ماہ پہلے بنایا تھا۔ 9 نومبر 2019 کو بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت میں ملوث تمام ملزمان کو بری کر دیا۔

اہم بات یہ ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد بی جے پی کی لوک سبھا میں سیٹیں 121 سے بڑھ کر 188 ہوگئی تھیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ایودھیا میں بابری مسجد کی بے حرمتی بین الاقوامی اصولوں کے منافی اور اقلیتوں کے مذہبی حقوق کی سنگین خلاف ورزی تھی۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 1992 سے اب تک صرف بھارتی ریاست گجرات میں 500 مساجد شہید اور ان گنت مزارات ڈھائے جا چکے ہیں۔

Similar Posts