غزہ امن معاہدہ ،پاک افغان بڑھتی کشیدگی

غزہ میں ظلم و بربریت، اور آگ و خون کی لمبی اندھیری رات،وقتی طور پر ہی سہی،چھٹنے کو ہے۔دو سال سے اوپر جاری بربریت نے غزہ کو ایک کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے۔70ہزار فلسطینی شہید اور اس سے تین گنا افراد جن میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے،زخمی ہو چکے ہیں۔کوئی گھر،کوئی اسکول،کوئی اسپتال سلامت نہیں۔اسرائیل نے نہ صرف اپنے تمام اہداف حاصل کر لیے ہیں بلکہ ہمیشہ کی طرح اور بھی بہت کچھ سمیٹ لیا ہے۔حماس کو ختم کیا جا رہا ہے۔

لبنان میں حزب اﷲ کی عسکری و سیاسی قوت بہت حد تک ملیامیٹ ہو چکی ہے۔شام میں اسرائیل کی ناپسندیدہ حکومت تبدیل ہو چکی ہے۔ایران کی تمام پراکسی تنظیمیں دم توڑ چکی ہیں۔خود ایران پر اسرائیل اور امریکا کے حملوں کے نتیجے میں ایرانی اعلیٰ ترین عسکری و سائنسی قیادت خالقِ حقیقی سے جا ملی ہے۔

ایرانی جوہری پروگرام کو بہت نقصان پہنچا ہے۔اسرائیل کو اس کے سارے یرغمالی مل گئے ہیں اور ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق کئی عرب ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ دفاعی معاہدہ کر لیا ہے۔13اکتوبر کو امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کی فتح کا پرغرور اعلان کیا۔دعا ہے کہ غزہ میں امن ہو،شہیدوں کی شہادت قبول ہو،زخمی صحت یاب ہوں اور بیواؤں و یتیموں کی داد رسی ہو۔

غزہ میں تو بظاہر امن کی امید پیدا ہو گئی ہے لیکن پاکستان میں امن روٹھ گیا ہے۔عین اس وقت جب غزہ میں امن کی طرف پیش قدمی ہو رہی تھی،ایک مذہبی جماعت کو غزہ یاد آ گیا۔اس گروہ کے زعماء اور کارکنوں نے لاہور کا امن تباہ اور لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کر دیا۔سمجھ میں نہیں آتا کہ اب جب کہ ایک معاہدہ ہو چکا ہے اور حماس و فلسطینی اتھارٹی سمیت تمام عرب ممالک اس معاہدے کو قبول و منظور کر رہے ہیں تو پاکستان میں اس پر کیوں ہیجان برپا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔آخر یہ کون سا موقع ہے کہ جتھے اسلام آباد پر یلغار کریں اور نظامِ زندگی درہم برہم ہو۔ ایسے وقت میں پاکستان میں شورش بپا کرنا ملک کو نقصان پہنچانا ہے۔

پہلے لاہور کا امن تباہ کیا گیا اور پھر جی ٹی روڈ کے شہروں میں زندگی کا نظام تلپٹ ہوا۔ پاکستان کے عوام کو مشکلات میں مبتلا کر کے احتجاج کرنے کے بجائے ایسے لیڈران اور کارکنوں کو چاہیے کہ غزہ پہنچ کر صیہونی جارحیت کے خلاف سینہ سپر ہوں اور غزہ کے مجبور و بے کس باشندوں کا ہاتھ بٹائیں۔بہت مشکل وقت میں غزہ کے باسیوں پر آگ برستی رہی لیکن اس گروہ نے نہ تو احتجاج کیا اور نہ ہی غزہ پہنچ کر ان کے زخموں پر مرہم رکھا۔

پاکستان کی مغربی سرحد شعلے اگلنے لگی۔جب سے کابل میں طالبان حکومت برسرِ اقتدار آئی ہے، پاکستان کے اندر ہر روز کئی مقامات پر دہشت گردی ہو رہی ہے جس سے خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں لاء اور آرڈر تباہ ہو چکا ہے۔

افغانستان تو زمانہ ء وسطیٰ میں دھکیلا جا چکا ہے لیکن پاکستان مخالف طالبان کے مختلف دھڑے پاکستان کو بھی پیچھے دھکیل دینا چاہتے ہیں۔وہ افغانستان کے اندر اپنی پناہ گاہیں بنا چکے ہیں اور وہاں سے نکل کر،افغان حکومت کی سرپرستی میں خیبر پختون خوا کے کئی اضلاع میں پھیل چکے ہیں۔ان کو بڑی آسانی سے پاکستانی سہولت کار مل جاتے ہیں۔آئے روز پاکستانی چوکیوں اور چھاؤنیوں پر حملے ہو رہے ہیں۔بہت قیمتی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔پاکستان کی بہادر افواج اور پولیس انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیاں کر کے شرپسندوں کو ٹھکانے لگانے میں مصروف ہیں لیکن افغان حکومت کے عدم تعاون اور مقامی سہولت کاروں کی وجہ سے صورتحال قابو میں نہیں آ رہی۔

آگ اگلتی مغربی سرحد سے پاکستانی قوم اور پاکستان کی  قیادت کو سبق لینا چاہیے۔افغان ایک احسان فراموش قوم ہے۔پاکستانیوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ جن لوگوں کو اسلامی بھائی چارے کی بنیاد پر چالیس سال تک پالا،جن کی کئی نسلیں پاکستان میںپروان چڑھیں،جن کی دو سپر پاورز سے جان چھڑوائی،جن کے کئی ملین لوگوں کو پچاس سال سے مہمان بنا کر رکھا،جنھوں نے نہ صرف پاکستان میں کھل کر کاروبار کیا بلکہ رشتے داریاں قائم کیں،جس ملک کو باہر سے ہر چیز پاکستان کے راستے جاتی ہے،جن کی ہمدردی میں پاکستان کے ہزاروں افراد شہید اور بے گھر ہوئے،وہی فریکن سٹائن ہمارے اوپر حملہ آور ہو گیا۔

افغانستان نے پاکستانی معاشرے کو تباہ و برباد کر دیا۔پاکستان میں،دہشت گردی، کلاشنکوف‘ اسمگلنگ اور خطرناک ڈرگز متعارف کروائیں۔ پاکستان نے ہر فورم پر افغانستان کا مقدمہ لڑا لیکن اس سب کے باوجود افغانی پاکستان سے شاکی ہی نہیں رہے بلکہ دشمنی پر آمادہ رہے۔انھوں نے وہ سب کیا جو ہندوستان چاہتا تھا۔ہندوستان سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کا مقصد پاکستان کو Exploitکرنا ہوتا ہے۔

پاکستان ثبوتوں کے ساتھ بار بار افغان طالبان حکومت کو کہتا رہا ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے لیکن افغان حکومت مثبت ردِ عمل دینے سے قاصر رہی۔پچھلے دو ہفتوں میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر جب حملے بڑھ گئے تو پاکستان نے ایک بار پھر افغان حکومت کی اس طرف توجہ مبذول کرائی۔جب اس بار بھی بات نہ بنی تو پاکستان نے کابل اور پکتیا میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔عین اس موقع پر افغان وزیرِ خارجہ امیر متقی آٹھ روزہ دورے پر دہلی پہنچے۔

ہندوستان نے افغانستان کو 20ایمبولنس دینے کا وعدہ کیا اور ساتھ ہی ہندوستانی مشن کو سفارت خانے کا درجہ دینے کا اعلان کیا۔ ہندوستان جو کام پاکستان سے نہیں کروا سکتا وہ افغانستان کے حوالے کر دیتا ہے۔یونہی امیر متقی نے کہا کہ پاکستان کو واہگہ سرحد کھولنی چاہیے تاکہ افغانستان اور ہندوستان کے درمیان تجارت ہو سکے۔دراصل یہ ہندوستانی مطالبہ ہے۔

ایک اطلاع کے مطابق ہندوستان نے اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے افغان قیادت کو پاکستان پر حملے کے لیے اُکسایا۔ ہندوستانی حکومت کی فرمائش پر افغان افواج نے میزائلوں اور راکٹ لانچروں سے خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں کئی مقامات پر حملہ کر دیا۔افغان حکومت نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے ذمے داری بھی قبول کی۔ایسے میں پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور بہادر پاکستانی افواج نے منہ توڑ جواب دیتے ہوئے درجنوں دہشت گردوں اور حملہ آوروں کو ہلاک اور کئی چوکیوں کو مسمار کر دیا۔پاکستان کے حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے افغان فوجی ہتھیار چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ 20پاکستانیوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔

افغانستان نے منگل کو ایک اور حملہ کیا۔چین اورروس نے دونوں ممالک کو صبر و تحمل سے کام لینے کا کہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پاکستان اور افغانستان،دو مسلم پڑوسی ممالک کبھی نہ لڑیں اور اپنے اپنے عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے کمر بستہ ہوں لیکن یہ توقع رکھنا کہ پاکستان ہی زخم سہتا رہے،صبر کرے اور قربانی دے جب کہ افغانستان ہندوستانی گود میں بیٹھ کر پاکستان کو نقصان پہنچاتا رہے،ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

یہ واضح ہو چکا ہے کہ پاکستان خطے کی ایک مضبوط فوجی قوت ہے۔اس وقت پاکستان کے تعلقات چین،روس اور امریکا سے اچھے ہیں۔عرب ممالک پاکستان کے مزید قریب آئے ہیں۔پاکستان کو دامن بچا کر اپنی معیشت مضبوط کرنی اور عوام کی فلاح و بہبود و خوشحالی کے لیے تیزی سے کام کرنا ہے۔خدا کرے ہم پاکستان کو دشمن کی ریشہ دوانیوں سے بچا کر ملک کو عظیم ترین بنانے میں لگ جائیں۔آمین۔

Similar Posts