طالبان وزیر خارجہ کو دَورئہ بھارت سے کیا ملا؟

’’افغان خواتین و بچیوں کی تعلیم اور دیگر بنیادی حقوق کے سخت مخالف طالبان وزیر خار جہ، امیر خان متقی، کی بھارت میں جس شاندار انداز میں سرکاری آؤ بھگت کی گئی ہے، میرا سرشرم سے جھک گیا ہے۔‘‘یہ الفاظ ممتاز بھارتی شاعر اور میوزک کمپوزر، جاوید اختر، کے ہیں۔

افغانستان پر قابض طالبان حکومت کے وزیر خارجہ ، مولوی امیر خان متقی، کا ایک ہفتے پر مشتمل طویل دَورئہ بھارت16اکتوبر2025 کو ختم ہو چکا ہے۔ ممکن ہے جب یہ کالم شائع ہو امیر متقی واپس افغانستان پہنچ چکے ہوں۔پاکستان کے عناد میںامیر متقی کی بھارت میں خوب تواضح ہُوئی ہے ۔ پاکستان کو دکھا دکھا کر اُن سے لاڈ پیار بھی کیا گیا ہے اور اُن کے ممکنہ حد تک کئی ناز نخرے بھی اُٹھائے گئے ہیں ۔

مثال کے طور پر نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جب بھارتی وزیر خارجہ (جئے شنکر) اور طالبان وزیر خارجہ نے اکٹھے ہی ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرنا تھا، امیر خان متقی نے اپنے بھارتی ہندو میزبانوں سے نخوت سے کہا:’’ میری اِس پریس کانفرنس میں کوئی خاتون صحافی موجود نہیں ہونی چاہیے‘‘ تو بھارتیوں نے اُن کا یہ’’ حکم‘‘ من و عن قبول کر لیا۔بھارت بھر میں اِس پر بہت احتجاج کیا گیا ہے ۔ کانگریسی و اپوزیشن لیڈر، راہل گاندھی، سمیت بھارتی خواتین صحافیوں کی تنظیموں ( مثلاً IWPC اور NWMI) نے مودی حکومت ، جئے شنکر اورامیر خان متقی کی سخت گوشمالی کی ۔’’ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا‘‘ نے متقی کے اِس ’’حکم ‘‘ کو بھارتی خواتین صحافیوں کی توہین قرار دیا؛ چنانچہ اِس سخت احتجاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب دو دن بعد امیر متقی نے دوبارہ نئی دہلی کے افغان سفارتخانے میں پریس کانفرنس کی تو اِس میں 16بھارتی خواتین صحافی پہلی صف میں موجود تھیں ۔

امیر خان متقی کے دَورئہ بھارت سے پاکستان کو بجا طور پر تشویش رہی ۔ اِس دَورے کو طالبان حکومت کی محسن کشی کہا گیا ہے ۔ بھارتی دَورے میں امیر متقی نے پاکستان کے خلاف جو قابلِ مذمت زبان اور لہجہ اختیار کیا، اِسے سب پاکستانیوں نے احسان فراموشی قرار دیا ہے ۔متقی صاحب کے سیاسی تقویٰ بارے تو ہم بعد میں جائزہ لیں گے ، پہلے تو اُن کے اور طالبان حکومت بارے ایک پنجابی محاورے کے مصداق یوں کہا جائے گا: کُڑ کُڑ کدھرے تے انڈے کدھرے! ہم یہاں جائزہ لیں گے کہ امیر متقی اور اُن کی قابض حکومت کو دَورئہ بھارت سے ملا کیا؟ اور یہ کہ وہ بھارتی سرزمین پر بار بار پاکستان کے خلاف بیانات کے’’ پھوکے‘‘ گولے داغنے پر کیوں مجبور ہُوئے ؟ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بھارت میں کئی جگہ پر امیر متقی کو سخت ناپسندیدہ نظروں سے بھی دیکھا گیا ہے ۔ مثلاً: کرناٹک کے وزیر اعلیٰ(سدھار میا) کے بیٹے ( یاتندر میا) نے بھارت میں امیر متقی کی موجودگی میں کہا:’’افغان طالبان اور آر ایس ایس کی کرتوتوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔‘‘

امیر خان متقی ( جو کبھی اپنے خاندان سمیت پاکستان کی مفت روٹیاں کھاتے اور پاکستان کے مدارس سے مفت تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں) نے اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ، دانستہ، مسئلہ کشمیر بارے بھارتی موقف کی ہمنوائی کرکے زیادتی بھی کی ہے اور پاکستان کا دل بھی دکھایا ہے ۔

کوئی شخص یا گروہ اس قدر شتابی سے اپنے محسنوں کی پُشت میں چھُرا گھونپ سکتا ہے جس طرح متقی نے گھونپا ہے؟ طالبان حکومت کو مگر کوئی شرم اور حیا محسوس نہیں ہُوئی ۔ طالبان کے وزیر خارجہ کو اِس دروغ گوئی سے مگر ملا کیا؟ بس یہی کہ بھارتی بنیا اپنے مقاصد و اہداف کے حصول کے لیے مولوی متقی کے وقتی طور پر صدقے واری گیا؟ مسئلہ کشمیر کے ریفرنس میں بھارت کی ہمنوائی کرکے متقی کی حکومت کو شائد پہلا یہ ’’انعام‘‘ ملا ہے کہ بھارت نے کابل میں نئے سرے سے اپنا سفارتخانہ کھولنے کا عندیہ ظاہر کر دیا ہے ۔ متقی کے کشمیر بارے باطل بیان کی بنیاد پر سارا بھارتی میڈیا ،پاکستان کے بغض میں، شادیانے بجاتا دیکھا اور سُنا گیا ہے ۔

عبوری و قابض طالبان حکومت کے نگران وزیر خارجہ ابھی بھارت ہی میں تھے کہ ہمارے ڈی جی آئی ایس پی آر نے پشاور میں کی گئی اپنی زبردست پریس کانفرنس میں افغانستان پر قابض طالبان کو بھی آئینہ دکھایا ۔ متقی کی پیشانی پر اِس لیے بھی بَل پڑے رہے ۔ موصوف ابھی بھارت ہی میں تھے کہ خبریں آئیں کہ کابل میں پُر اسرار دھماکے ہُوئے ہیں ۔ یہ بھی خبریں آئیں کہ اِن دھماکوں میں بھارتی نمک خوار دہشت گرد اور ٹی ٹی پی کاسرغنہ ، نُور ولی محسود، مارا گیا ہے ۔ اِس کی مگر ہنوذ تصدیق نہیں ہو سکی ہے ۔

اِن دھماکوں کی بنیاد پر بھارتی میڈیا نے متقی کو پاکستان کے خلاف بھڑکانے کی بھرپور سعی کی ۔ اور مُلّا جی اِس غچے میں آ بھی گئے اور پاکستان کو یوں بین السطور دھمکی دی:’’ ہمارے صبر کو مت آزمایا جائے ۔ اگر کسی کو ہماری شمشیر زنی پر شبہ ہے تو وہ جا کر برطانوی ، سوویت ، امریکی اور ناٹو افواج سے پوچھ لے۔‘‘ مُلّا جی موصوف شائد زمینی حقائق سے دانستہ بے خبر ہیں ۔ اگر پاکستان اُن کی پُشت پناہی نہ کرتا تو وہ اور جملہ نام نہاد افغان ’’مجاہدین‘‘ دو ٹکے کے بھی نہیں تھے۔

یہ بھی بہرحال افسوسناک واقعہ ہے کہ ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق اور اُن کے ہمنواؤں نے محض اپنے ذاتی اوراقتداری مفادات کے مسلسل حصول کے لیے نام نہاد جہادِ افغانستان کی دہکتی بھٹّی میں پورے پاکستان کو بیدردی سے جھونک دیا ۔اِس کی سزا ہم پچھلے کئی برسوں سے بھگت رہے ہیں ۔ ٹی ٹی اے اور ٹی ٹی پی کے ہاتھوں آئے روز بیگناہ پاکستانیوں اور ہماری سیکیورٹی فورسز کے جوانوں و افسروں کا خون بہہ رہا ہے ۔

افغان طالبان کے ہاتھوں پیدا کردہ اِس خونی منظر کو دیکھ دیکھ کر بھارت خوشیاں منا رہا ہے کہ اُس کے گماشتے افغان طالبان پاکستان میں قیامتیں برپا کرتے رہتے ہیں ۔ اب جب کہ مولوی امیر خان متقی بھارتی دَورے پر تھے، بھارتیوں کی مسرتیں دیدنی تھیں ۔ متقی کا رانجھا راضی کرنے کے لیے اُنہیں آگرہ میں ایستادہ معروفِ عالم تاریخی عمارت ، تاج محل،کی تفصیلی سیر کروانے کا پروگرام بھی بنایا تھا ۔

وہ آگرہ پہنچ بھی گئے تھے ، مگر عین آخری لمحات میں آگرہ کے پولیس کمشنرکو نئی دہلی سے ایک پُر اسرار فون آیا اورسیر کا یہ پروگرام منسوخ کر دیا گیا۔ سوال مگر یہ ہے کہ اِن طالبان نے تو اپنے ہاں بامیان میں صدیوں پرانے بدھا کے مجسمے بموں سے اُڑا دیے تھے اور افغانستان میں کئی مزاروں کی بے حرمتی بھی کی تھی ۔ پھر یہ متقی صاحب تاج محل کیا دیکھنے جارہے تھے ؟ تاج محل بھی تو ایک مزار ہی ہے کہ اس کے اندر ایک مغل بادشاہ کی محبوب بیوی مدفون ہے ۔

مولوی امیر خان متقی کو بھارتی دَورے سے ایک تحفہ یہ بھی ملا ہے کہ اب وہ اپنے نام کے ساتھ ’’قاسمی‘‘ بھی لکھ سکتے ہیں ۔ یہ’’ خطاب‘‘ اُنہیں بھارتی ریاست اُتر پردیش میں واقعہ 160 سالہ قدیم دینی درسگاہ ، دارالعلوم دیوبند، کی جانب سے ملا ہے ۔

متقی صاحب کو بھارتی خفیہ اداروں نے ایک خاص ایجنڈے کے تحت دارالعلوم دیوبند کا دَورہ بھی کروایا ؛ چنانچہ امیر متقی نے مذکورہ دارالعلوم کے اساتذہ اور طلبا سے خطاب کرتے ہُوئے یہ جملے خصوصاً ادا کیے :’’ مَیںاور ہماری جملہ قیادت بھی آپ لوگوں میں سے ہی ہیں۔‘‘ مُلّا امیر متقی جب بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی، کے اسلام دشمن نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر (اجیت ڈووَل) سے مل کر دارالعلوم دیوبند سے خطاب کررہے تھے تو ہم میں سے کئی لوگوں کو 2016 میں کہے گئے اجیت ڈووَل کے یہ الفاظ شدت سے یاد آ رہے تھے:’’ہم اپنی مرضی سے طالبان کو استعمال کریں گے۔ طالبان دارالعلوم دیوبند کو دل کے کانوں سے سُنتے ہیں ۔

ہم طالبان کو دیوبند کے ذریعے کنٹرول کریں گے۔ طالبان کرائے کے سپاہی ہیں۔ ہم اُن پر فنڈز کی بارش کریں گے اور وہ ہماری باتیں مانیں گے بھی ۔‘‘ یہ الفاظ یو ٹیوب پر اب بھی سُنے جا سکتے ہیں۔ ممتاز دانشور جناب مشاہد حسین سید کا ٹوئٹر پر کہنا ہے:India is faithfully following the Doval script on using terror proxies against Pakistan. اب کیا شک باقی رہ گیا ہے کہ ٹی ٹی پی اور ٹی ٹی اے نے 12اور 13اکتوبر 2025 کی درمیانی شب (جب متقی صاحب ابھی بھارت ہی میں تھے) پاکستان پر جو حملے کیے ، وہ دراصل کس کا کھیل تھے؟

Similar Posts