آغا سراج درانی کے والد کا نام آغا صدر الدین درانی تھا۔وہ سندھ کے معروف ضلع شکارپور کے نواحی علاقے گڑھی یٰسین میں پیدا ہوئے تھے، آغا صدر الدین درانی مسلم لیگی تھے‘ بعد میں وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔
آغا سراج درانی کا شمارصدر مملکت آصف علی زرداری کے قریبی دوستوں میں ہوتا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی آغا سراج کے گھر گئیں جب کہ آصف زرداری آغا سراج خان کے گھر آ کر ٹھہرا بھی کرتے تھے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ آصف زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے کس قدر قریب تھے۔وہ پیپلز پارٹی سندھ کے انتہائی اہم رہنما سمجھے جاتے تھے ۔
آغا سراج گڑھی یٰسین سے پہلی بار 1988 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور قائم علی شاہ کی کابینہ میں بلدیات و ہاؤسنگ کے صوبائی وزیر مقرر کیے گئے اور وزیر کی حیثیت سے پہلی بار شکارپور آئے تو ان کے پی آر او برکات رضوی نے راقم کا ان سے تعارف کرایا تھا جب کہ راقم کی ان کے والد اور بڑے بھائی آغا صلاح الدین سے پہلے سے شناسائی تھی اور راقم نے جب مسلم لیگی وزیر مملکت برائے خارجہ زین نورانی کو شکار پور پریس کلب میں مدعو کیا تو آغا صدرالدین درانی بھی ان کے ہمراہ تھے جو زین نورانی کے دوست تھے۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ آغا سراج درانی کا خاندان سیاست میں خاصا اثرورسوخ رکھتا تھا اور ان کے تعلقات سندھ کے انتہائی با اثر خاندانوں کے ساتھ موجود تھے۔اسی وجہ سے وہ صوبائی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوتے رہے ہیں۔
صدر مملکت آصف زرداری کی سندھ کی سیاست میں آغا سراج درانی اور ذوالفقار مرزا سے قریبی دوستی تھی، اس لیے سندھ میں جب بھی پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی دونوں ہی کو اہم وزارتیں ملیں۔ 1988 میں شکارپور میں آغا سراج نے راقم کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ سندھ حکومت کراچی میں سمندر کے پانی کو صاف کرا کر قابل استعمال بنانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ کراچی میں پانی کی قلت کا مسئلہ حل کرایا جاسکے۔ آغا سراج 1993 میں سندھ کے وزیر تعلیم اور بلدیات کے وزیر بھی رہے مگر سندھ حکومت نے کراچی میں سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنانے پر توجہ ہی نہیں دی۔
1988 میں محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی بار پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئی تھیں ۔ان کے دورمیں بھی سندھ میں وزیراعلیٰ پیپلز پارٹی کا ہی رہا تھا۔ وہ دو بار پاکستان کی منتخب وزیر اعظم رہیں۔ان کے بعداب بھی سندھ پر پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن آج بھی کراچی والے پینے کے پانی کی قلت کا شکار اور پانی کے لیے ترس رہے ہیں۔ آغا سراج درانی دو بار سندھ اسمبلی کے اسپیکر بھی رہے اور سندھ اسمبلی میں مخالف پارٹیوں کو بھی ساتھ لے کر چلے اور ایم کیو ایم کے ساتھ بھی دوستانہ رہا۔
آغا سراج درانی، آصف زرداری کے ہمراہ نائن زیرو بھی گئے تھے۔ آغا سراج کا رویہ ایم کیو ایم کے ساتھ مصالحانہ رہا جو آصف زرداری کی پالیسی کے مطابق تھا اور مرحوم نے آخر تک صدر آصف زرداری سے دوستی نبھائی۔یہی ایک مخلص سیاستدان کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ پارٹی پالیسی کے مطابق چلتا ہے۔
آغا سراج سندھ کے وزیر اعلیٰ نہ بن سکے کیونکہ وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں پیپلز پارٹی کے دیگر مخلص لیڈر اور کارکن بھی شریک رہے ہیں۔ویسے بھی اس میں مقدر کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔آغا سراج درانی صوبائی وزیر سے لے کر سندھ اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر فائز رہے جو کہ ایک سیاستدان کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔
2008 میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو آغا سراج دو بار سندھ اسمبلی کے اسپیکر رہے مگر جب 2024 میں پی پی کی چوتھی حکومت میں آغا سراج کو نظرانداز کیا گیاحالانکہ میری رائے میں پی پی سے وفاداری کے باعث سندھ کی وزارت اعلیٰ ان کا حق تھا اسی لیے شاید آغا سراج سندھ کابینہ میں شامل نہیں ہوئے۔
آغا سراج نے پی ٹی آئی دور میں اسپیکر ہوتے ہوئے نیب کے جھوٹے مقدمات کا سامنا کیا، گرفتار بھی ہوئے اور نیب کا ملزم اور قیدی ہوتے ہوئے قائم مقام گورنر سندھ سندھ اسمبلی کی صدارت کرتے رہے اور اسپیکر کی رہائش گاہ ان کے لیے سب جیل قرار پائی مگر وفات تک ان پر مقدمات چلتے رہے۔اس کے باوجود وہ تادم مرگ پیپلز پارٹی کے ساتھ رہے۔