نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا اب باہر جاؤں کس کے لیے
اور مہدی حسن نے احمد فراز کی غزل اس انداز میں گائی کہ لوگ برسوں نہیں بھلا سکے، جب کہ یہ غزل بھی بہت پہلے لکھی گئی تھی۔
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ جانے کے لیے آ
لیکن جہاں تک اقبال بانوکا تعلق ہے انھوں نے جو بھی گایا خوب گایا۔ خواہ فلمی ہو یا غیر فلمی، ٹھمری ہو یا دادرا ہو سب میں یکتا۔ اقبال بانو 28 دسمبر 1928 کو دہلی میں پیدا ہوئیں۔ چھوٹی ہی تھیں جب گانے کا شوق ہوا۔ پڑوس میں ان کی ایک سہیلی تھی جو گاتی بہت اچھا تھی۔ اقبال بانو اس کی آواز میں آواز ملا کر گایا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ انھوں نے اپنی سہیلی سے کہا کہ وہ اپنے والد سے کہے کہ وہ میرے ابا سے بات کریں اور مجھے بھی موسیقی کی تعلیم دلوائیں۔ اس سہیلی کے والد نے جب اقبال بانو کے والد سے بات کی تو انھوں نے اقبال بانو کا پڑوس میں جانا بند کروا دیا۔ تب پھر بھی سہیلی کے والد نے انھیں سمجھایا کہ میری بیٹی بھی گاتی ہے۔ اس کی آواز بھی بہت اچھی ہے لیکن جو نور آپ کی بیٹی کی آواز میں ہے وہ الگ ہی ہے۔ آپ کی بیٹی کی آواز قدرت کا عطیہ ہے۔ اس کو ضایع مت کریں۔ ان کے سمجھانے پر اقبال بانو کے والد راضی ہو گئے اور اقبال بانو کو استاد صابری خاں اور استاد چاند خاں کی شاگردی میں دے دیا گیا۔
استاد چاند خاں انھیں آل انڈیا ریڈیو دہلی میں بچوں کے پروگرام میں لے گئے۔ استاد چاند خاں اور استاد صابری خاں کی شاگردی میں موسیقی کے اسرار و رموز سیکھنے لگیں۔ ان کے استادوں نے کہا کہ اقبال بانو کے اندر ایک بڑا فنکار چھپا ہے۔ اب وہ ایک کامیاب گلوکارہ بن چکی تھیں۔ وہ سیمی کلاسیکل اور غزل بہت اچھی گاتی تھیں انھوں نے ٹھمری اور دادرا کی تربیت بھی حاصل کی۔
اقبال بانو کے والد کو اب اپنی بیٹی پر فخر ہوتا تھا اور انھیں یہ بات سمجھ میں آ گئی تھی کہ اگر وہ پڑوسی کی بات نہ مانتے تو نہ صرف خود اقبال بانو کے ساتھ زیادتی ہوتی بلکہ فن کی دنیا پر بھی ظلم ہوتا ۔ انھوں نے ’’ گنڈا بندھ‘‘ بھی بندھوایا تھا جو استاد اور شاگرد کے درمیان ایک خوبصورت رشتے کا مظہر ہوتا ہے۔ ’’ گنڈا بندھ‘‘ ایک طریقے کا گنڈا ہوتا ہے جس میں گرہیں لگی ہوتی ہیں۔
آل انڈیا ریڈیو نے ان کی غزلیں ریکارڈ کیں۔ اقبال بانوکی زندگی کا پہلا ریکارڈ آل انڈیا ریڈیو دہلی میں ریکارڈ ہوا۔ 1951 میں وہ پاکستان آ گئیں اپنے خاندان کے ہمراہ اور یہاں ملتان کے ایک زمیندار خاندان میں شادی کر کے ملتان ہی میں بس گئیں۔ شادی اس شرط پر کی کہ شوہر ان کے گانے پر پابندی نہیں لگائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ ان کے شوہر نے ہر قدم پر ان کا ساتھ دیا، اس عرصے میں انھوں نے سیف الدین سیف اور قتیل شفائی کی غزلیں گائیں اور داد سمیٹی۔ ان غزلوں کو ماسٹر عنایت نے کمپوزکیا، ان کے علاوہ رشید عطرے نے بھی اقبال بانو کی غزلوں کو کمپوز کیا۔ اب وہ اسٹار بن چکی تھیں 1950 میں وہ بلندیوں تک جا پہنچیں۔ انھوں نے فلموں میں گیت بھی گائے اور ریڈیو پاکستان سے بھی ان کے نغمے نشر ہونے لگے۔ ان کے چند مشہور نغمے یہ تھے۔
(1)۔ پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے (فلم گمنام کا یہ گیت بہت مقبول ہوا)
(2)۔ الفت کی نئی منزل کو چلا (فلم قاتل، 1955)
(3)۔ چھوڑ ہمیں کس دیس سدھارے (فلم قاتل)
(4)۔ دو دلوں پہ ہوا الفت کا اثر (1950، فلم انتقام)
(5)۔ تاروں کا بھی تو مالک (فلم سرفروش1956)
(6)۔ پریشاں رات ساری ہے (فلم عشق لیلیٰ1957)
(7)۔ امبوا کی ڈالیوں میں جھولنا چلا جا (ناگن 1959)
اقبال بانو کی گائیکی میں حسن کی ملاحت، عشق جیسی تمکنت اور محبت جیسی وارفتگی ہے۔ انھیں کوئین آف غزل یعنی ملکہ غزل کا خطاب ملا۔ اردو غزل پر ان کا احسان عظیم ہے۔ ان کی زبان کا خالص تلفظ ان کی غزل گائیکی کا طرہ امتیاز ہے۔ ان کو بریک تھرو ملا، فیض صاحب کی نظمیں اور غزلیں گانے سے۔
باقی صدیقی کی یہ غزل دلوں کو چھو لیتی ہے۔
داغ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیے جلانے لگے
فیض صاحب کی ایک نظم اقبال بانو کی وجہ سے مشہور ہوئی۔
دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے تیرے ہونٹوں کے سراب
اقبال بانو نے سرائیکی اور فارسی میں بھی غزلیں اورگیت گائے۔ ایران اورکابل میں ان کو جشن کابل میں شرکت کا بلاوا آتا تھا، انھیں ایران بھی بلایا جاتا تھا۔
1980 میں ان کے شوہرکا انتقال ہوگیا جس کے بعد وہ لاہور آگئیں۔ پی ٹی وی نے ان کا ایک پروگرام ’’نکھار‘‘ ٹیلی کاسٹ کیا 1970 میں جس کو بہت پذیرائی ملی تھی۔
اقبال بانو کو سروں کی ملکہ بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے قلی قطب شاہ کا گیت پیا باج پیالہ پیا جائے ناکو بہت خوبصورتی سے گایا۔ ان کے تین بچے ہیں، دو بیٹے، افضل اور ہمایوں اور ایک بیٹی ملیحہ۔ سرخ و سفید رنگت کی مالک اقبال بانو نے 42 فلموں کے لیے 64 گانے ریکارڈ کروائے جن میں غیرت، غلط فہمی، انتظار، عشق لیلیٰ، قرار، آنکھ کا نشہ، حمیدہ، قاتل، گمنام، ناگن اور سرفروش سرفہرست ہیں۔ انھوں نے غالب کا کلام بھی نہایت خوبی سے گایا۔
باقی صدیقی کی غزل کا یہ شعر ہجرت کے ماروں کے دل کی آواز بن گیا۔
ایک پل میں وہاں سے ہم یوں اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
1986 میں ضیا کی آمریت کے دوران لاہور آرٹس کونسل میں فیض صاحب کی سالگرہ منائی جا رہی تھی جہاں مشاعرہ بھی تھا اور محفل موسیقی بھی۔ رات بارہ بجے مشاعرہ ختم ہوا تو لوگ جانے لگے، اسی اثنا میں ایک آواز ایسی گونجی جس نے لوگوں کے بڑھتے قدم روک لیے۔ یہ آواز تھی ملکہ غزل اقبال بانوکی۔ وہ گا رہی تھیں فیض کا کلام، سیاہ ساڑھی میں ملبوس یہ ایک طرح کا احتجاج تھا، کیونکہ فیض صاحب کے کلام پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی گئی تھی، وہ نظم تھی۔
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل پہ لکھا ہے
جب تاج اچھالے جائیں گے
جب تخت گرائے جائیں گے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
اقبال بانو کی آواز نے بڑھتے قدم روک لیے۔ ہزاروں کی تعداد میں بیٹھے سامعین محفل موسیقی ختم ہونے تک بیٹھے رہے۔ یہ کمال تھا ایک شاعر اور ایک مغنیہ کا۔