بنگلا دیش کے پبلک پراسیکیوٹر نے 78 سالہ سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے لیے سزائے موت کی درخواست کردی۔
بنگلا دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کے خلاف 2024 میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو کچلنے کے حکم دینے کے الزام میں غیر حاضری میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ ان مظاہروں کو روکنے کے دوران حکومت کے سخت اقدامات میں سیکڑوں افراد کی ہلاکتیں ہوئیں۔
چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام نے عدالت کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم اس مقدمے میں شیخ حسینہ کے لیے سب سے بڑی سزا کا مطالبہ کرتے ہیں۔“
ان کا کہنا تھا کہ ”کیونکہ ایک قتل کے لیے ایک سزائے موت کا قانون ہے، اس لیے 1,400 قتل کے لیے شیخ حسینہ کو 1,400 بار سزائے موت دینی چاہیے، لیکن چونکہ یہ انسانی طور پر ممکن نہیں ہے، ہم کم از کم ایک بار سزائے موت کا مطالبہ کرتے ہیں۔“
مقدمے کی تفصیلات
شیخ حسینہ پر الزام ہے کہ انہوں نے جولائی اور اگست 2024 میں ہونے والی بغاوت کے دوران کیے گئے جرائم کو روکنے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا۔ اس دوران مظاہرین پر تشدد کے نتیجے میں 1,400 افراد ہلاک ہوئے۔
شیخ حسینہ کے علاوہ سابق وزیر داخلہ اسد الزماں خان کمال اور سابق پولیس چیف چوہدری عبداللہ المامون بھی اس مقدمے میں شامل ہیں۔ کمال ابھی بھی مفرور ہیں، جبکہ چوہدری نے جرم کا اعتراف کیا ہے اور انہیں زیر حراست رکھا گیا ہے۔
بنگلا دیش کی مفرور سابق وزیر اعظم حسینہ پر الزام ہے کہ ان کے دور حکومت میں وہ مرکزی شخصیت تھیں جن کے تحت یہ تمام جرائم ہوئے۔ تاہم، حسینہ نے بھارت سے واپس آنے کے عدالتی احکامات کو مسترد کیا ہے اور ان الزامات کو جھوٹا قرار دیا ہے۔
شیخ حسینہ نے اس دوران اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے سخت اقدامات کیے اور عوامی مظاہروں کو کچلنے کی کوشش کی۔ استغاثہ کے مطابق، ان کا مقصد اپنے اور اپنے خاندان کے لیے اقتدار کو مستقل طور پر قائم رکھنا تھا، جس کے دوران وہ انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہو گئیں اور ان کے ظلم پر کوئی پچھتاوا نہیں۔
مقدمہ 1 جون 2024 کو شروع ہوا تھا اور کئی ماہ تک سماعت جاری رہی۔ اس دوران حکومت کی جانب سے عدالت میں سزائے موت کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تاکہ شیخ حسینہ کو ان جرائم کی سزا دی جا سکے جن کی وجہ سے بنگلا دیش میں خونریزی ہوئی۔
2024 کے دوران، طلبہ کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں حکومت مخالف احتجاج بھڑک اٹھے تھے، جس کے نتیجے میں شیخ حسینہ کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔
اقوام متحدہ کے مطابق، ان مظاہروں کے دوران کم از کم 1,400 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں اکثریت سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں ہلاک ہوئی۔
یاد رہے کہ شیخ حسینہ گزشتہ سال اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد بھارت فرار ہوگئیں، جہاں وہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ بنگلا دیشی عدالتوں نے ان کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں، تاہم بھارت نے ابھی تک ان پر عمل درآمد سے انکار کیا ہے۔
اس مقدمے کے آغاز پر جون میں شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پارٹی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس مقدمے کو دھوکا قرار دیا۔ پارٹی نے اپنے خلاف تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمہ سیاسی نوعیت کا ہے۔