افغانستان، جو اپنے ذائقہ دار پھلوں اور زرعی پیداوار کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے، ان دنوں شدید معاشی نقصان کا سامنا کر رہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ زمینی سرحدوں کی بندش نے افغان پھلوں اور سبزیوں کی برآمدات کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ نتیجتاً ہزاروں ٹرک سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں، اور ان میں لدی قیمتی پیداوار گرمی اور تاخیر کے باعث خراب ہو رہی ہے۔
تاجروں کے مطابق، روزانہ لاکھوں ڈالر مالیت کے پھل ضائع ہو رہے ہیں۔ ان میں تازہ انگور، انار، سیب اور سبزیاں شامل ہیں، جو افغانستان کے کاشتکاروں اور برآمدکنندگان کے لیے آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ مگر بارڈر بند ہونے کے بعد یہ سارا سرمایہ ضائع ہوتا جا رہا ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو زراعت سے وابستہ لاکھوں افغان خاندان مالی بحران میں مبتلا ہو جائیں گے۔
پہلے افغان تاجر زیادہ تر پاکستان کے راستے اپنے پھل دنیا بھر میں برآمد کرتے تھے، لیکن اب زمینی راستے بند ہونے کے باعث انہیں فضائی یا سمندری راستوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ فضائی نقل و حمل نہ صرف مہنگی ہے بلکہ اس کی گنجائش بھی محدود ہے، جبکہ سمندری راستہ طویل اور سست ہونے کی وجہ سے تازہ پھلوں کے لیے موزوں نہیں۔ نتیجتاً، لاگت بڑھ گئی ہے اور مارکیٹ میں رسد کم ہونے سے قیمتیں اوپر جا رہی ہیں۔
افغانستان اس وقت نہ صرف مالی نقصان اٹھا رہا ہے بلکہ اس کی زرعی برآمدات کی ساکھ بھی خطرے میں ہے۔ بیرونِ ملک خریدار بروقت ترسیل نہ ہونے کی وجہ سے متبادل منڈیوں کا رخ کر رہے ہیں، جس سے افغانستان کی عالمی منڈی میں ساکھ کمزور پڑ رہی ہے۔
دوسری طرف، پاکستانی تاجر بھی اس صورتحال سے متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ افغان پھلوں کی بڑی مقدار پاکستان کی منڈیوں میں فروخت ہوتی ہے۔
تجارتی برادری دونوں حکومتوں سے پرزور اپیل کر رہی ہے کہ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر سرحدی راستے کھولے جائیں۔ ساتھ ہی کولڈ اسٹوریج، جدید پیکیجنگ اور مؤثر لاجسٹکس کے نظام کو بہتر بنایا جائے تاکہ آئندہ ایسے بحران سے بچا جا سکے۔
افغانستان کے کسانوں اور تاجروں کے لیے یہ صرف کاروباری نقصان نہیں بلکہ زندگی بھر کی محنت کی بربادی ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران افغانستان کی زراعت، برآمدات اور دیہی معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔