افغانستان کی دوغلی سیاست

افغانستان سے پاکستان پر حملہ ہندوستان کی شہ پر ہوا، جب جارحیت ہوئی تو افغانستان کے وزیر خارجہ دہلی میں بیٹھے تھے، حالیہ واقعات کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، اگر افغان حکومت نے خلوص نیت سے اقدامات نہ کیے تو پاکستان اپنی دفاعی کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے پر مجبور ہوگا۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ان خیالات کا اظہار وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا۔

 بلاشبہ پاکستان اگر اپنے دفاع کی ذمے داری نہ اٹھائے تو خطے میں خلا پیدا ہو جائے گا۔ القاعدہ، داعش یا دیگر تنظیمیں دوبارہ سر اٹھائیں گی۔ یہ صورتحال نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے خطرہ ہے۔ ایران، چین، وسطی ایشیا کے اہم ممالک مشترکہ خواہش رکھتے ہیں کہ خطے میں امن اور استحکام ہو۔ جب پاکستان کی سرزمین محفوظ ہو، جب سرحدیں مستحکم ہوں، تو پورے خطے کی تجارت، ثقافت، انسانی تعامل اور اقتصادی ترقی ممکن ہو سکے گی۔

آج دنیا ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جہاں دہشت گردی ایک عالمی چیلنج ہے، سرحدیں آسانی سے عبور ہوتی ہیں، مالی و اطلاعاتی نیٹ ورکس بین الاقوامی سطح پر کام کرتے ہیں۔

ایک ملک اگر اپنے علاقائی پڑوسی سے تعاون نہ کرے اور اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کی کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے دے، تو نہ صرف خود خطرے میں پڑتا ہے بلکہ عالمی سیکیورٹی کا ایک حلقہ کمزور ہو جاتا ہے، اگر افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال ہوتی رہی، تو وہ خطے میں استحکام کی کوششوں کو ناقص بنا دے گی۔

پاکستان کے نقطہ نظر سے، یہ اب تک کوشش رہی ہے کہ معاملات کو سفارتی اور مذاکراتی طریقے سے حل کیا جائے۔ پاکستان نے عالمی دنیا کو واضح کیا ہے کہ دوحہ معاہدہ ایک بین الاقوامی ذمے داری ہے، جسے پورا کرنا لازمی ہے۔ اس معاہدے کی روشنی میں افغانستان کی عبوری حکومت نے کئی وعدے کیے تھے، جن میں یہ شامل تھا کہ دہشت گردی کے واقعات روکیں گے، دہشت گرد جماعتوں کو جگہ نہیں دیں گے، پاکستان کے خلاف کارروائی نہیں ہونے دیں گے، اور سرحدی تحفظ کے اقدامات کریں گے، لیکن یہ وعدے عملی طور پر پورے نہیں کیے گئے۔

حملے وقفے وقفے سے ہو رہے ہیں، شہری اور سیکیورٹی فورسز کے جوان مارے جا رہے ہیں، امن کے دعوے محض الفاظ تک محدود رہ گئے ہیں۔ درحقیقت طالبان پر یقین کرنا یا بھروسہ کرنا اپنے آپ کو فریب دینے کے مترادف ہے۔ اب پاکستان کے لیے اس ضمن میں سخت فیصلے کر نے کا وقت آن پہنچا ہے اور اسے اپنی آستین کے ان سانپوں کے سر کو کچلنے کی ضرورت ہے۔

افغانستان کی دوغلی سیاست، طالبان کی دھوکا دہی اور بھارت کے ساتھ ان کی خفیہ ملی بھگت کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان اپنے قومی مفاد کو سب پر فوقیت دے۔ تمام غیر قانونی افغان باشندوں کو ملک بدر کیا جائے، افغان سرحد کو ناقابلِ عبور بنایا جائے، طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کو محدود کر کے پاکستان کی سلامتی کو اولین ترجیح بنایا جائے، بھارت افغان گٹھ جوڑ کے توڑ کے لیے ترکیہ، آذربائیجان، ایران اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ نئے دفاعی اور تجارتی تعلقات استوار کیے جائیں۔ افغانستان کا مسئلہ کبھی مذہب یا نظریہ نہیں رہا، یہ خالص مفاد، خود غرضی اور اقتدار کی ہوس کا کھیل رہا ہے۔ طالبان کا رویہ ہمیں کھرے اور کھوٹے کی پہچان کا موقع فراہم کرتا ہے۔ طالبان ہوں یا سابقہ افغان حکومتیں، سب کا مقصد ایک ہی رہا ہے۔

پاکستان کو کمزور کرنا اور بھارت کو خوش کرنا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے، طالبان پربھروسہ کرنا اپنے آپ کو فریب دینا ہے۔ ان کا ماضی وعدوں کی خلاف ورزیوں سے بھرا پڑا ہے۔ ماضی میں طالبان رہنماؤں میں سے مولوی یونس خالص، گلبدین حکمت یار، عبدالرسول سیاف، مولوی محمد نبی محمدی، پیر سید احمد گیلانی، صبغت اللہ مجددی اور برہان الدین ربانی نے مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے اندر، قرآن پر ہاتھ رکھ کر اپنے اختلافات ختم کرنے اور امن قائم کرنے کی قسم کھائی تھی لیکن چند روز بعد ہی یہ قسم توڑ ڈالی تھی۔

 دراصل ایک ریاست کی اخلاقی حیثیت اس وقت تک مضبوط رہتی ہے جب اُس کی خارجہ و اندرونی پالیسی میں ہم آہنگی ہو۔ صرف امن کی خواہش کا بیان کرنا کافی نہیں، اس کے لیے عملی اقدامات درکار ہیں۔ اگر دہشت گرد گروہ ایک ملک کی سرزمین استعمال کریں، حملے کریں، تو وہ ریاست اپنے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کیسے کر سکے گی؟ ریاست کا بنیادی فرض یہی ہے کہ وہ دہشت گردی کے واقعات کو روکے، دہشت گردوں کو پناہ نہ دے اور سرحدی حدود کا خیال رکھے۔

 افغانستان کی عبوری حکومت اب اس مرحلے پر آئے گی جہاں وہ وعدوں کی پاسداری کرے گی، دہشت گردوں کو سرزمین نہ دے گی، حملے روک دے گی، اور مستقل امن کا سفر شروع کرے گی۔ پاکستان امن چاہتا ہے، پاکستان نے امن چاہا ہے، اور اب خطے کی تقدیر کا مرکزی نقطہ اس بات پر ہے کہ آیا دوسرا فریق بھی امن کا خواہاں ہے یا نہیں۔ اگر وہ امن کے مطالبات کو پورا کرے، تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے دیرپا استحکام کی بنیاد ہو گی۔ یہ عارضی جنگ بندی ایک آزمائش ہے، ایک موقع ہے کہ افغان عبوری حکومت یہ ثابت کرے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف واقعی سنجیدہ ہے۔

یہ موقع ہے کہ وہ یہ دکھائے کہ دوحہ معاہدے کی شقوں پر عملدرآمد ممکن ہے۔ یہ موقع ہے کہ افغان حکومت یہ ثابت کرے کہ اُس کی سرزمین دہشت گردوں کے استعمال کے مقاصد کے لیے نہیں ہوگی، اور وہ پاکستان کی سرحدی سلامتی کا احترام کرے گی، اگر یہ عارضی جنگ بندی محض وقت ضایع کرنے، طاقت جمع کرنے، یا میڈیا تصویر سازی کا ذریعہ بنے، تو پاکستان کو دوبارہ دفاعی کارروائی کا موقع ملے گا، کیونکہ ریاستِ پاکستان کے پاس انتخاب کم ہے مگر فرض بہت ہے۔

 پاکستان کا عسکری و سرحدی ردعمل نہایت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے؛ دفاعی کارروائیاں وہی ہیں جو لازمی ہیں، اور جب امن کی راہ ممکن ہو، پاکستان پیش قدمی کرنے کے لیے تیار ہے، مگر یہ پیش قدمی صرف تب معنی خیز ہو گی جب دوسرا فریق بھی برابر کی سنجیدگی دکھائے۔اس صورتِ حال میں اقوام عالم کی ذمے داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ اقوامِ متحدہ، سلامتی کونسل، انسانی حقوق کے ادارے، خطے کے ممالک، بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے موقف پر توجہ دیں، تاکہ معاملہ یک طرفہ پسِ پردہ نہ رہے۔

عالمی برادری کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ افغانستان کی عبوری حکومت پر وہ دباؤ پڑے کہ وہ دوحہ معاہدے کی ذمے داریاں پورا کرے، دہشت گردوں کو پناہ نہ دے اور حملوں کے ذریعے سرحدی تحفظ کا احساس دلائے۔ بین الاقوامی شراکت داروں کو نہ صرف مشاورتی کردار ادا کرنا چاہیے، بلکہ مفاہمت اور ثالثی کے مواقع پیدا کرنے چاہیے، اور اگر ضروری ہو تو نگرانی اور تصدیق کے نظام کو فعال بنانا چاہیے۔پاکستان کے موقف کی جوازیت اور اخلاقی امتیاز یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنا دفاع کر رہا ہے بلکہ امن کی فضا قائم کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔

پناہ گزینوں کو سہارا دینے، انسانی بنیادوں پر قربانی دینے کا مطلب صرف کہانی نہیں، یہ پاکستان کی پختہ پالیسی ہے، مگر اب وقت ہے کہ افغان عبوری حکومت بھی شفافیت اور عملی اقدامات کے ذریعے یہ ثابت کرے کہ وہ امن کی خواہاں ہے، نہ کہ محض مفاہمت کے الفاظ کی قائل۔

پاکستان کے لیے آسان نہیں یہ سفر۔ دفاعی لاگت، انسانی نقصانات، گرانقدر وسائل کی منتقلی، سب کچھ سامنے ہے۔ سرحدی علاقوں کی بگڑتی سلامتی، فوجی اور سویلین جان کا نقصان، پناہ گزینوں کی کیفیت، سیاسی دباؤ، معاشی مضمرات ۔ یہ تمام پہلو پاکستان پر بوجھ ہیں۔ مگر ایک ریاست کا فرض یہی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کرے، ملکی خود مختاری کا تحفظ کرے، اور خطے میں امن کے لیے ذمے دارانہ کردار ادا کرے۔ اگر افغانستان کی عبوری حکومت واقعی سنجیدہ ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے وعدوں سے پیچھے نہ ہٹے اور ٹھوس اقدامات کرے۔

خلاصہ کلام یہ کہ امن صرف الفاظ میں ممکن نہیں، امن کی بنیاد عمل پر ہے۔ معاہدے صرف اس وقت قدر رکھتے ہیں جب اُن پر عمل کیا جائے، وعدے صرف اس وقت قیمتی ہیں جب وفا ہو۔ پاکستان نے امن کا راستہ اختیار کیا ہے، سفارت کاری کی راہ اپنائی ہے، گفتگو کے دروازے کھولے ہیں، مگر اگر دوسرا طرف دار اپنا حصہ نہیں دے رہا، تو پاکستان کو دفاع کا حق استعمال کرنا پڑے گا اور یہ حق وہ محفوظ رکھے گا۔

اب وقت ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت بھی ثابت قدمی کا مظاہرہ کرے، اگر واقعی عالمی امن کا مقصد ہے، دہشت گردی کے خاتمے کی سچی خواہش ہے، تو وہ نہ صرف اعلان کرے بلکہ عملی اقدامات اٹھائے، دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرے، حملے بند کرے، سرحدی تحفظ کو یقینی بنائے، معلومات کا تبادلہ کرے اور معاہدے کی روح کے مطابق عمل کرے۔ یہی راستہ ہے جو امن تک پہنچائے گا، یہی راستہ ہے جو خطے میں دیرپا استحکام کی بنیاد بنے گا، اور یہی راستہ ہے جو دہشت گردی کے خلاف عالمی کوششوں کو کامیاب کرے گا۔ پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا ہے، اور اب امید کی جا سکتی ہے کہ اس کا پیغام نہ صرف سنا جائے بلکہ اس پر عمل بھی ہو۔

Similar Posts