حملہ آور،ہیرو یا لٹیرے

دس لاکھ سال پہلے ایک تاریک رات تھی جب قدیم انسان نے کسی خطرے سے بچاؤ کے لیے ایک پتھر پوری قوت سے پھینکا تو یہ پتھر ایک چٹان سے جا ٹکرایا تو اس سے چنگاریاں نکلیں ۔ تو انسان آگ سے آشنا ہوا۔ جس سے اس کی زندگی سہل ہو گئی ۔ انسان کا وجود اس کرہ ارض پر تین لاکھ سال پہلے وجود میں آیا اس وقت اس کا دماغ بہت چھوٹا تھا ایک بندر کے دماغ کی طرح ۔اس دماغ کو بڑھنے میں مزید ایک سال لگا اورتین لاکھ سال بعد اس کے دماغ نے موجودہ شکل اختیار کی ۔

آگ مقدس آگ، انسان نے اس کی طاقت سے متاثر ہو کر اس کی پوجا کرنی شروع کردی، یہ آگ الاؤ کی شکل میں انسان کو خونخوار درندوں سے بچاتی تھی ۔ اور جب لوہا دریافت ہوا تو انسان نے اس کو پگھلا کر تلوار ، تیر، نیزے ، بھالے بنائے اور اپنے جیسے انسانوں کا قتل عام شروع کردیا۔دنیا بھر میں فتوحات حاصل کرنا شروع کردیں ۔ اس طرح سے انسانی تاریخ میں خونخوار دور کا آغاز ہوا یہاں تک کہ جب اس نے گھوڑے کو پالتو بنانے کا ہنر سیکھ لیا تو ایسا دہشت گرد بن گیا جس نے دنیا فتح کرنے کے نام پر انسانوں کی کھوپڑیوں کے مینار بنانے شروع کردیے ۔ آج یہی یا اس سے ملتے جلتے کارناموں کے حامل ہیرو ہیں ۔

آج کے لوگ ان سے متاثر ہیں کیونکہ ان کی دہشت انسانوں دلوں میں آج بھی بیٹھی ہوئی ہے ۔ یہ قاتلوں کا گروہ جنھوں نے مجبور ،بے بس ، غریب ، کمزور پرامن انسانوں کا قتل عام کیا ۔ ان کا تمام دنیا کی تواریخ میں ذکر عزت واحترام سے لیا جاتا ہے ۔ بجائے ان کے قابل نفرین کارناموں کی مذمت کرنے کے ۔ ایک گروہ ،قوم کا ہیرو دوسری قوم گروہ کے نزدیک قاتل ہے ۔ آخر ہم کب ہوش کے ناخن لیں گے ۔ آخر کب تک یہ انسان کش فعل چلتا رہے گا۔ آخر ہم کب حقیقی معنوں میں مہذب بنیں گے ۔ ہمارا ضمیر کب جاگے گا۔ ہزاروں سال گزر گئے یہ قتل وغارت جاری ہے۔

برصغیر کی ہی مثال لے لیں جب نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی نے پنجاب برصغیر پر حملے کرکے ظلم وستم کے ہولناک ریکارڈ قائم کیے ۔ نادرشاہ نے اپنے صرف چند سپاہیوں کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے دہلی میں خون کی ندیاں بہا دیں ۔ صرف دہلی میں ہی ایک لاکھ انسانوں کا قتل عام کیا گیا جب کہ احمد شاہ ابدالی کے لوٹ مار کے قصے بلھے شاہ کے اشعار میں محفوظ ہیں ۔ یہ حملہ آور ڈاکو لٹیرے نہ صرف پنجاب کی بیٹیوں کی عزتوں کو پامال کرتے بلکہ واپس جاتے ہوئے لاکھوں لڑکیوں ، عورتوں ، مردوں کو زنجیروں میں باندھ کر ساتھ لے جاتے جن میں سے بیشتر سفر کی صعوبتوں کو برداشت نہ کرتے ہوئے جاں بحق ہو جاتیں۔ ان کی نسلوں سے اس کا بدلہ لینا پنجاب برصغیر پر واجب ہے ۔

پورا برصغیر اس کارنامے پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا کہ وہ واحد شخص تھا جس نے پشاور ، درہ خیبر تک اپنی سلطنت قائم کرکے ان لٹیروں کا داخلہ برصغیر میں ہمیشہ کے لیے بند کردیا ۔ اندازہ کریں کہ رنجیت سنگھ کے خوف کا یہ عالم تھا کہ افغان مائیں اپنے بچوں کو سکھ جرنیل کا نام لے کر سلاتی تھیں ۔ آپس کی بات ہے تاریخ کو مسخ کرنا صدیوں سے ہمارا محبوب مشغلہ رہا ہے ۔ یہی کچھ پاکستان بننے کے بعد بھی جاری ہے تعلیمی اداروں اور ہر سطح پر مسخ شدہ تاریخ پڑھا کر لٹیروں اور قاتلوں کو ہیرو بنایا جارہا ہے ۔

ذرا غور فرمائیں لاکھوں نہیں صرف ہزاروں سال پہلے انسان کی زندگی کس قدر خوفناک اور دل دہلانے والے حالات میں گھری ہوئی تھی وہ غاروں میں پناہ لیتا تھا جہاں خونخوار درندے اسے چیر پھاڑ دیتے تھے ۔ یہ صرف سائنسدان ہی ہیں جنھوں نے انسان کی زندگی آسان سے آسان تر اور عیش وآرام سے بھر پور بنائی ۔ آج سے صرف چند سوسال پہلے کا انسان اگر دوبارہ زندہ ہو جائے تو شہنشاہوں اور بادشاہوں سمیت وہ آج کے انسان کی عیش وآرام کی زندگی دیکھ کر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ۔ (یہ کارنامہ بھی سائنسدان مستقبل میں انجام دینے والے ہیں ۔ )کیونکہ انھوں نے تو صرف دنیا فتح کرنے اور انسانوں کے قتل عام پر تاریخی ریکارڈ بنائے ۔

کون کون سی نعمتیں گنوائی جائیں جنھیں سائنسدانوں نے اﷲ کی دی ہوئی عقل استعمال کرکے انسانوں کی زندگیوں کو ایسا شاندار بنا دیا جس کو ماضی کے نام نہاد فاتحین خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے ۔ برصغیر میں یہ برہمن کا احساس برتری ہی تھا جس نے ہزاروں سال تک اپنے جیسے انسانوں کو شودر کی سطح پر گرا کر جانوروں سے بھی زیادہ حقیر بنا دیا ۔ ان لوگوں پر برہمنوں کے ظلم وستم کے واقعات کی کہانیاں سن کر آج کے ہر باضمیر انسان کا دماغ ماؤف ہو جاتا ہے ۔

بات تو آرٹیفشل انٹیلی جنس کی رہ ہی گئی۔ چلیں کوئی بات نہیں پھر کبھی سہی ۔ انسانوں کی سوچ کو ہزاروں سال پرانی سوچ سے نکالنے کے لیے سائنسی سوچ میں ڈھالنا ضروری ہے ۔ ابھی تو ہم ہزاروں سال پرانی قدامت پسند سوچ میں ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ اس سے نجات کا سوچنا بھی محال ہے ۔ لیکن بہت جلد سائنسی ایجادات کے ہاتھوں قدامت پرستی کا سفینہ ڈوبنے والا ہے ۔

Similar Posts