ملک کے چاروں صوبوں میں بائیں بازُو کے کئی اخبارات و جرائد اپنی منفرد پھبن کے ساتھ موجود تھے۔80ء کے عشرے میں مگر دو ایسے واقعات نے جنم لیا جنھوں نے ہمارے ہاں بائیں بازُو کی موجودگی کو نہائت مدہم کر دیا۔ اور یہ تھے ایران میں مذہبی انقلاب کا برپا ہونا اور پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت !جنرل ضیاء کے گیارہ سال استبدادی دَور نے پاکستان میں دائیں بازُو کی صحافت ، سیاست اور ادبیات پر ایک خاص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے دست شفقت رکھا اور غیر محسوس انداز میں بائیں بازُو کی سیاست و صحافت کو کچل کررکھ دیا۔
اب ہر جانب یک رُخے خیالات و افکار کی ’’بہار‘‘ ہے۔ آج کے نئے صحافیوں کو شائد معلوم ہی نہ ہو کہ دائیں اور بائیں کی صحافت میں تخصیص و امتیاز کسے کہتے ہیں؟اِسے ہماری خوش قسمتی کہئے یا بدبختی کہ ہم نے صحافت کا آغاز کیا تو دائیں بازُو کے حامل صحافتی اداروں اور دائیں بازُو کے معروف صحافیوں کے زیر ادارت ہی کیا ۔
جناب الطاف حسن قریشی وطنِ عزیز کے نامور اور معروف دائیں بازُو کے صحافیوں کے سرخیل و سردار ہیں ۔ اِنہی محترم کے زیر سایہ ہم نے بھی صحافت کی وادیِ پُر خار میں قدم رکھا ؛ چنانچہ جناب الطاف حسن قریشی کی شخصیت ، صحافت اور اسلوبِ تحریر سے ہم متاثر و مغلوب ہوتے چلے گئے ۔ اب تک اُن کی تحریروں کے حُسن نے ہمارے قلب و نظر کو خیرہ کررکھا ہے ۔
پاکستان میں صحافت اور سیاست سے ذرا سی دلچسپی رکھنے والا کون نہیں جانتا کہ جناب الطاف حسن قریشی ماہنامہ ’’اُردو ڈائجسٹ‘‘ کے بانی و مدیر ہیں ۔ ماضی قریب میں اُن کی جادوئی صحافتی شخصیت نے اُنہیں بادشاہ گر بھی بنائے رکھا ۔ جنرل ضیاء الحق اور نواز شریف کے مقرب و معتمد صحافیوں کی فہرست میں اوّلین حیثیت رکھتے رہے ہیں ۔ اُردو ڈائجسٹ نے لاریب پاکستان میں قومی زبان ، اُردو، کی ترویج و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
اگرچہ اُردو زبان کو آج تک قومی سطح پر وہ مقام نہیں مل سکا ہے جس کی وہ مستحق ہے۔ الطاف حسن قریشی صاحب اپنی تحریروں میں پاکستان میں انگریزی بولنے والوں کو طنزو تعریض کا ہدف بناتے بھی رہے ہیں۔ وہ جن نامور پاکستانی شخصیات سے انٹرویو کرتے تھے، اُن میں بھی بین السطور وطنِ عزیز کے تمام شعبہ ہائے حیات میں اُردو کی واضح ترویج کی تبلیغ و اشاعت کا فریضہ ، بالخصوص،ادا کرتے تھے۔ اگرچہ اُردو ڈائجسٹ میں خود ’’ڈائجسٹ‘‘ کا لفظ انگریزی زبان کا ہے۔
ایک زمانے میں جناب الطاف حسن قریشی کے مفصل انٹرویوزکا بے حد شہرہ رہا ہے ۔ اُن کے انٹرویوز اب تو کلاسیک کا درجہ حاصل کر چکے ہیں ۔ خوش قسمتی سے اب اُن کے کئی انٹرویوز کا پہلا حصہ کتابی شکل میںاشاعت پذیر ہو چکا ہے ۔ اِسے ’’دانشِ گفتگو‘‘ کا دلکش و دلربا عنوان دیا گیا ہے ۔ ’’دانشِ گفتگو‘‘ میں 30انٹرویوز شامل ہیں۔ مختلف شخصیات سے الطاف صاحب کے یہ تاریخی مکالمات 1961ء تا 1964ء میں کیے گئے ۔ اِن انٹرویوز کا منفرد جمال یہ ہے کہ اِن میں تنوع ہے ۔زیر تبصرہ کتاب میں الطاف حسن قریشی صاحب نے ججوں، قانون دانوں، وزیر اعظم ، علمائے کرام ، ادیبوں، طبیبوں اور پولیس افسروں سے باکمال مکالمہ کیا ہے ۔
الطاف حسن قریشی صاحب کے حروفِ مطبوعہ پر ریویوکرنا سہل نہیں ہے۔ زیر نظر کتاب میں شامل جملہ انٹرویوز کئی ایسی شخصیات کے بھی ہیں جنھوں نے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح اور حضرت علامہ اقبال سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور اُنہیں دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کیں ۔ مثال کے طور پر مولانا غلام رسول مہر ( جو اپنے دَور کے مشہور صحافی، مترجم اور ادیب تھے) نے الطاف صاحب سے مکالمہ کرتے ہُوئے بتایا کہ ہم نے اپنا اخبار ’’انقلاب‘‘ شائع کیا تو اِس کی پہلی اشاعت کے پہلے صفحے پر حضرت علامہ اقبال کی نظم بعنوان ’’انقلاب‘‘ شائع کی گئی اور اخبار کا نام بھی علامہ صاحب کی اِسی نظم سے اس لیے لیا گیا کہ ہم نے علامہ صاحب سے مذکورہ نظم خود سُننے کی سعادت حاصل کی تھی ۔
’’دانشِ گفتگو‘‘ میں شامل اوّلین انٹرویو میں جسٹس ایس اے رحمان نے بھی دلکشا یادوں میں شامل کرتے ہُوئے قارئین کو بتایا ہے کہ اُنھوں نے کب اور کس ماحول میں علامہ اقبال سے شرفِ ملاقات حاصل کیا ۔ ہم تو اِن نادر ملاقاتوں کا تصورات ہی میںرُوحانی لطف اُٹھا سکتے ہیں ۔ ایسا ہی رُوحانی لطف ہمیں کتاب میں شامل مولانا صلاح الدین احمد ( اپنے دَور کے معروف ادبی جریدے ’’ادبی دُنیا‘‘ کے مالک و مدیر) کے انٹرویو سے بھی ملتا ہے ۔ مولانا صلاح الدین بتاتے ہیں کہ جب سرسید احمد خان اپنی علی گڑھ یونیورسٹی اور مسلمانانِ ہند کے تعلیمی فروغ کے لیے لاہور تشریف لائے اور چندے کی کال کی تو صلاح الدین احمد صاحب کی والدہ محترمہ نے گھر میں موجود چاندی کے سکّوں سے بھرا مٹکا سرسید احمد خان کی خدمت میں پیش کردیا۔ساری عمر کی جمع پونجی ایک قومی مقصد پر نثار کر دی۔ آج ایثار و قومی خدمت کی ایسی مثال شائد ہی ہمیں اپنے سماج میں میسر آئے ۔
یہ عظیم اور بے نظیر لوگ اب رفت گذشت ہو چکے ہیں ۔ کتاب میں شامل میاں بشیر احمد اور جسٹس محمد شریف بھی اُن خوش بخت شخصیات میں شامل تھے جنھوں نے بابائے قوم کو دیکھا، اُن کے ساتھ تحریکِ پاکستان میں خدمات انجام دیں اور اُن کے نقوشِ قدم پر چلنے کی اپنی سی کوششیں بھی کیں ۔ ’’دانشِ گفتگو‘‘ میں اُن کے خیالات پڑھ کر نظریہ پاکستان اور مقاصدِ تشکیلِ پاکستان پھر سے انگڑائی لے کر دل میں بیدار ہو جاتے ہیں۔
’’دانشِ گفتگو‘‘ میں شامل بعض انٹرویوز ایسے بھی ہیں جن پر چھ عشروں سے زائد زمانے اور بدلے حالات کی اتنی گرد جم چکی ہے کہ چہرے دھندلے اور بے نام ہو چکے ہیں اور اُن کے خیالات و شخصیت آج Irrelevant ہو چکے ہیں ۔ اُن کی گفتگو بھی بے لطف، بے محل اور بے مزہ ہو چکی ہے ۔ مثال کے طور پر زیر نظر کتاب میں شامل ڈاکٹر سید محمد عبداللہ اور ڈاکٹر مس خدیجہ فیروز الدین سے مکالمات ۔اِس بے مزہ فہرست میں چند اور اسمائے گرامی بھی شامل ہیں۔تقریباً500صفحات پر مشتمل ’’دانشِ گفتگو‘‘ بڑے خوبصورت انداز میں شائع کی گئی ہے ۔ قیمت تین ہزار روپے ہے اور اِس قیمت کو بے جا کہا جانا چاہیے ۔
کتاب کے آخری صفحات میں اُن تمام معزز اور تاریخی شخصیات کی فوٹوز بھی شائع کر دی گئی ہیں جن کے انٹرویوز کیے گئے ۔ یہ قابلِ تحسین اقدام کیا گیا ہے۔ دانش و عمل کی یہ بے نظیر ہستیاں اگرچہ اب نظروں سے اوجھل ہو چکی ہیں لیکن اُن کی تصاویر دیکھ کر دل کو سکینت ملتی ہے ۔ جناب الطاف حسن قریشی نے اپنے جملہ انٹرویوز میں تقریباً ہر شخصیت سے نظریہ پاکستان ، تشکیلِ پاکستان کے مقاصد ، اسلامی کلچر کے تحفظ، پاکستان میں اُردو کی ترویج ، ملک میں نظامِ اسلام کے نفاذ اور عالمِ اسلام کے اتحاد بارے سوالات پوچھے بھی ہیں اور اپنے سوالات میں اِنہی موضوعات بارے اپنے ذاتی خیالات و خواہشات کا اظہار بھی کیا ہے ۔
زیر نظر کتاب میں جن شخصیات کے انٹرویوز شامل کیے گئے ہیں، ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: جسٹس ایس اے رحمن ، ڈاکٹر سید محمد عبداللہ ، غلام رسول مہر، چوہدری نذیر احمد خان، ڈاکٹر مس خدیجہ فیروز الدین، مولانا صلاح الدین احمد،، حکیم نیر واسطی، ڈاکٹر عبدالرحمن بارکر، میاں بشیر احمد، جسٹس محمد شریف، اے کے بروہی، پروفیسر حمید احمد خاں، مولوی تمیز الدین، محمد شریف خاں، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، چوہدری محمد علی، مولانا ابوالحسن علی ندوی، سید محمد امین الحسینی، ڈاکٹر محمود حسین، صالح اوزجان، چوہدری محمد افضل چیمہ، غلام محی الدین قصوری ، ڈاکٹر غلام یاسین خاں نیازی، حکیم محمد سعید دہلوی، مولوی فرید احمد، اے آر کار نیلیئس، حسن الامین، اے ٹی مصطفیٰ، مولانا احتشام الحق تھانوی اور جسٹس محبوب مرشد۔ مکرم و محترم الطاف حسن قریشی صاحب کا خصوصی شکریہ کہ جناب نے اپنی یہ کتاب( دانشِ گفتگو) چند ہفتے قبل اپنے دستخطوں سے مجھے ارسال فرمائی ۔ ریویو میں کچھ تاخیر ہو گئی ہے ۔ اِس پر معذرت قبول فرمائیے۔یہ ریویو مگر ناتمام ہے کہ الطاف صاحب کے الفاظ پر تبصرہ آسان نہیں ہے۔