دیکھا جنھیں پلٹ کے

‘ عطا الحق قاسمی پاکستان کے سب سے بڑے ادیب ہیں۔’ مخدومی مجیب الرحمن شامی نے یہ کہا تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ یہ واقعہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسی میں’ دیکھا جنھیں پلٹ کے’ کی تقریب اجرا کے موقع پر پیش آیا۔ ڈاکٹر نوید الٰہی اور میں نے ایوان صدر میں ایک ساتھ کام کیا ہے۔ مرحوم و مغفور صدر ممنون حسین فرمایا کرتے تھے کہ تم دونوں میں ایسی دوستی ہے کہ بعض اوقات ڈر لگتا ہے۔

صدر صاحب کو ڈر کس بات کا لگتا تھا؟ یہ بات صیغہ راز میں ہی رہے تو بہتر ہے لیکن اتنا کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ خود صاحب ایوان کے ایوان میں بھی کچھ عناصر کچھ عجیب و غریب مقاصد کے لیے ہمہ وقت متحرک رہتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ‘ بزرگ ‘ جو کرنا چاہتے ہیں، نہ کر سکیں۔

ایوان صدر کے زمانے میں صدر مملکت کو ان کی عدم موجودگی میں ہم لوگ احترام اور محبت سے بزرگ کے لفظ سے یاد کیا کرتے تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب علامہ خادم حسین رضوی اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھائی کیا کرتے تھے۔ ان دنوں ایک سازش تیار ہوئی تا کہ ریاست کی پالیسی کے خلاف صدر مملکت سے کچھ مشکوک افراد کی ملاقات کرا دی جائے تاکہ بحران پیدا ہو جائے۔ اس موقع پر ڈاکٹر نوید الٰہی سینہ تان کر کھڑے ہو گئے کہ اوور مائی ڈیڈ باڈی۔ اس جہاد میں انھیں میرا تعاون حاصل تھا۔ اسی طرح جب میں کوئی اسٹینڈ لیتا تو ڈاکٹر نوید الٰہی میری پشت پر کھڑے ہو جاتے۔

صدر صاحب اس ‘ جوڑی’ کی کارکردگی سے خوش تھے اور وہ ہماری پیٹھ بھی تھپکا کرتے تھے لیکن مسکراتے ہوئے یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ جوش و جذبے میں کہیں کوئی ریڈ لائن عبور نہ کر جانا۔ صدر صاحب بس اسی بات سے ڈرتے تھے لیکن یہ بھی جانتے تھے کہ ایسا نہیں ہو گا، بس بزرگانہ شفقت سے نصیحت اور یاد دہانی ضروری سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر نوید اور میں جب کبھی اکٹھے ہوتے ہیں تو ہم اس خوش گوار زمانے کو خوش دلی سے یاد کیا کرتے ہیں۔

اس روز بھی ان یادوں نے غلبہ کیا لیکن کم کم۔ سبب اس کا میری تازہ کتاب تھی۔ میرا خاکوں کا دوسرا مجموعہ بہت پہلے آ جانا چاہیے تھا لیکن میری توجہ حضرت داتا گنج بخش علیہ رحمہ کی حکایات پر مرکوز تھی لیکن بھلا ہو علامہ عبد الستار عاصم اور برادرم عرفان جعفر خان کا۔ ان دونوں کا خیال تھا کہ حکایات پر آپ کام جاری رکھیں، بس خاکے ہمارے سپرد کر دیں۔

یہ کام اتنا آسان نہ تھا لیکن اس کے باوجود مجھے ان کے حکم کی تعمیل کرنی پڑی۔ عرفان جعفر خان نے پروف ریڈنگ کا پہلا مرحلہ سر کر کے میرا ہاتھ بٹانے کی کوشش کی تو علامہ نے یہ کہہ کر حوصلہ افزائی کی کہ اس کتاب کے لیے تو محنت بھی نہیں کرنی پڑے گی، ہاتھوں ہاتھ نکل جائے گی۔ علامہ کی زبان مبارک ثابت ہوئی۔ اللہ کے فضل و کرم سے کتاب کی توقع سے بڑھ کر پزیرائی ہوئی۔ اب علامہ اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

خیر، بات دور جا نکلی۔ ‘ دیکھا جنھیں پلٹ کے’ جیسے ہی ڈاکٹر نوید الٰہی  کے پاس پہنچی، انھوں نے مجھے لاہور طلب کر لیا اور بتایا کہ ان کے باوقار ادارے میں کتاب پر نشست ہوگی۔ نیشنل انسٹیٹوٹ آف پبلک پالیسی ڈگری ایوارڈنگ ادارہ ہے، توقع ہے کہ جلد اسے یونیورسٹی کا چارٹر بھی مل جائے گا۔ اس ادارے کی ذمے داری سینیٹر بیوروکریسی کی تربیت ہے جس سے گزر کر سرکاری افسران ترقی پاتے ہیں۔ سوال یہ تھا کہ نوکر شاہی سے کشتی لڑنے والے ایک شدھ سرکاری ادارے میں ادب کا کیا کام؟ یہ سوال صرف میرے ذہن میں نہیں تھا، حاضرین کی بڑی تعداد بھی اسی انداز میں سوچ رہی تھی۔

انسٹی ٹیوٹ کے ریکٹر ڈاکٹر جمیل آفاقی نے اپنی خوب صورت تقریر میں اس سوال کا دلوں میں خوشی بھر دینے والا جواب دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کارپردازان ریاست اور عوام کے درمیان فاصلے سمیٹنے کی شعوری کوشش کر رہے ہیں۔ اس کا ایک طریقہ لٹریچر اور ادب کا مطالعہ بھی ہے۔ ہمارے بیوروکریٹ مطالعہ کرتے تو ہیں لیکن ان کی توجہ انگریزی پر ہوتی ہے۔ ہم انھیں قومی زبانوں اور خاص طور پر اردو ادب کی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ انھوں نے ‘ دیکھا جنھیں پلٹ کے’ کا ذکر بڑی محبت سے کیا اور بتایا کہ اس میں شامل خاکے صرف ادب ہی نہیں ہیں بلکہ قومی تاریخ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ کتاب ہر شہری کے لیے خاص طور پر کارپردازان ریاست کے لیے مفید ہے۔

مخدومی مجیب الرحمن شامی نے اس موقع پر کتاب میں شامل نوابزادہ لیاقت علی خان، مشاہد اللہ خان اور جاوید ہاشمی سمیت کئی خاکوں کا تفصیل سے جائزہ لے کر تاریخ کی کئی گتھیاں سلجھائیں اور کلمات محبت سے میرا حوصلہ بڑھایا۔ شامی صاحب خطاب کے لیے روسٹرم پر تشریف لائے تو اس موقع پر باہمی احترام اور تہذیب نفس کا ایک خوب صورت مظاہرہ بھی دیکھنے کو ملا۔ مخدومی عطا الحق قاسمی نے اصرار کیا کہ شامی صاحب کے احترام کا تقاضا ہے کہ وہ ان سے پہلے تقریر کریں لیکن شامی صاحب نے یہ کہہ کر فیصلہ کر دیا کہ قاسمی صاحب ملک کے سب سے بڑے ادیب ہیں جنھوں نے کلمہ حق کہنے سے کبھی گریز نہیں کیا۔ پرجوش تالیوں سے شامی صاحب کو حاضرین کی تائید بھی حاصل ہو گئی۔

میرے استاد گرامی ڈاکٹر طاہر مسعود فرمایا کرتے ہیں کہ قاسمی صاحب محبتیں بانٹنے والے بزرگ ہیں اور ان کی محبت غیر مشروط ہوتی ہے۔ مجھے اس کا دیرینہ تجربہ ہے۔ اس بار بھی میں ان کی محبت سے فیض یاب ہوا۔ انھوں نے میری تحریروں کی دل کھول کر حوصلہ افزائی فرمائی اور کہا کہ فاروق کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنھیں پبلک ریلیشنگ کا ہنر نہیں آتا لیکن اس کے باوجود لوگ اس کے لیے جمع ہو جاتے ہیں تو اس کا سبب اس کے مزاج کی عاجزی ہے۔ قاسمی صاحب کو جب یہ کتاب ملی تو انھوں نے فرمایا تھا:

‘ میاں محمد بخش کی سیف الملوک پڑھنے لگیں تو یہ داستان ہاتھ سے رکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ فاروق عادل کی کتاب ‘دیکھاجنھیں پلٹ کے’میں شامل شخصی خاکے بالکل ایسے ہی ہیں۔میں نے یہ کتاب تکیے تلے رکھی ہوئی ہے۔ روز ایک خاکہ پڑھتا ہوں اور اس شخص کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہوں جس کا خاکہ فاروق عادل لکھتا ہے۔’

این آئی ایس پی پی کی تقریب میں بہت سے دوستوں جیسے طیب اعجاز قریشی، جناب خالد محمود رسول، ڈاکٹر ابو الوفا محمود، اسعد چغتائی، عامر محمود چیمہ، ابو بکر قدوسی، ڈاکٹر وقار ملک، سجاد انور،چوہدری عبد الغفور، پیر ضیا الحق نقش بندی، اینکر رمضان شیخ اور جمشید علی خان نے شرکت کی۔ جمشید صاحب کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو میرے ادبی سفر کے بارے میں سب سے زیادہ جانتے ہیں۔

وہ گفتگو کے دھنی ہیں، وہ کہیں اور سنا کرے کوئی والی بات ان پر صادق آتی ہے لیکن لاہور میں آ کر وہ کچھ گوشہ نشین سے ہو گئے ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، ڈاکٹر حسین احمد پراچہ، پروفیسر سلیم منصور خالد، جامعہ پنجاب کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود، برادر محترم سلمان غنی، ڈاکٹر نوید الٰہی اور ڈاکٹر سیف سمیت بہت سے احباب نے اظہار خیال کیا جس پر ان سب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔

شامی صاحب کا کہنا تھا کہ بہت دنوں کے بعد لاہور میں ایسی تقریب ہوئی ہے جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنی بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ تقریب کے بعد بھی اس کے ‘ آفٹر ایفکٹس’ جاری رہے۔ مخدومی مجیب الرحمن شامی نے جم خانہ میں ایک نشست کی جس میں عطا الحق قاسمی، حفیظ اللہ نیازی، اکرم شیخ ایڈووکیٹ، سہیل وڑائچ، ڈاکٹر آصف ریاض قدیر، برادران عمر مجیب شامی اور عمر مجیب شامی سمیت دیگر احباب شریک ہوئے۔

چوہدری عبد الغفور صاحب نے فلیٹیز ہوٹل میں مجلس سجائی جس میں قبلہ شامی صاحب، جناب لیاقت بلوچ، آغا مسعود شورش، ایثار رانا اور دیگر احباب شریک ہوئے ۔جب کہ پیر ضیاء الحق نقش بندی صاحب اور برادرم محمد حسان نے اپنے اپنے چینلوں پر کتاب کے بارے میں گفتگو کا اہتمام کیا۔ حقیقت یہ ہے لاہور علم و ادب کا دارالحکومت ہے۔ اس شہر کی علمی سرگرمیوں کی اپنی ہی شان ہے۔ خطہ لاہور! تیری رونقیں دائم آباد۔

Similar Posts