دنیا کو درپیش مسائل میں ایک بڑا مسئلہ غربت ہے جس کے خاتمے کیلئے عالمی سطح پراقدامات کیے جا رہے ہیں۔ غربت کو ایک اہم مسئلہ سمجھتے ہوئے 1992 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 17 اکتوبر کو غربت کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا گیا اور یہ طے کیا گیا کہ تمام رکن ممالک نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ عالمی سطح پر بھی غربت کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کا جائزہ لیں تو ان میں پہلا ہدف غربت کا خاتمہ ہے جو 2030ء تک حاصل کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کا رکن ہونے کے ناطے پاکستان بھی اس حوالے سے اقدامات اٹھانے کا پابند ہے۔ پاکستان میں غربت کی صورتحال کیا ہے ، حکومت اس حوالے سے کیا اقدامات کر رہی ہے ،ملک سے غربت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ’’غربت کے خاتمے کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میںمختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ عاشق اعوان
(چیئرپرسن ، ڈیپارٹمنٹ آف
سوشل ورک، جامعہ پنجاب)
غربت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وسائل اور آبادی کا تناسب دیکھنا لازمی ہے۔ مالتھس کے نظریے کے مطابق آبادی کی ’’ایکسپونینشل گروتھ‘‘ہوتی ہے یعنی دو، چار، آٹھ کے پیٹرن میں جبکہ وسائل لکیر کی مانند ایک، دو، تین، چار کی طرح بڑھتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں وسائل اور آبادی کا تناسب تین طرح سے دیکھاجاسکتا ہے۔ پہلا یہ کہ آبادی اور وسائل برابر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے ملک نے آبادی اور وسائل میں توازن برقرار رکھا ہے لیکن مالتھس کے مطابق یہ توازن زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ دوسری صورت میں وسائل آبادی سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر وسائل کو ٹھیک سے مینج نہ کیا اور آبادی میں اضافہ ہوتا رہے تو کچھ وقت کے بعد وسائل میں کمی کا رجحان پیدا ہو جائے گا۔ تیسری صورت میں آبادی، وسائل سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ صورتحال ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان میں ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا کہ غربت کی اصل وجہ وسائل کی کمی ہے یا آبادی کا بڑھنا؟ ہم جانتے ہیں کہ آبادی میں اضافہ غربت کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ پاکستان میں اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہیں جن میں وسائل کا غلط استعمال،ریسورس موبلائزیشن کی کمی وغیرہ شامل ہیں۔ وسائل کا مطلب قدرتی اور انسانی دونوں وسائل ہیں۔ پاکستان کے پاس ان دونوں وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن مسئلہ ریسورس موبلائزیشن کا ہے۔ ہمارے پاس نوجوانوں کی صورت میں ایک بڑا ہیومن ریسورس موجود ہے اور نوجوانوں کی بڑی تعداد ورک فورس کا حصہ بھی ہے لہٰذا اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے اور غربت کا خاتمہ بھی کرنا ہے تو ہمیں اپنے انسانی وسائل پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں نوجوانوں کو ہنر کی تعلیم دے کر اس قابل بنانا ہوگا کہ وہ معاشرے میں اپنا بہتر کردار ادا کرسکیں ۔ نوجوانوں کی معاشی حالت بہتر کرنے کیلئے صرف ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں مواقع تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ اس حوالے سے سروے کیے جائیں کہ کن ممالک میں کونسی سکلز کی ڈیمانڈ ہے اور پھر نوجوانوں کو اس کے مطابق تیار کرکے دنیا بھر میں بھیجا جائے۔ اگر ہم نے نوجوانوں پر توجہ نہ دی، انہیں ہنرمند نہ بنایا تو ہماری معیشت پر بوجھ بڑھے گا اور چند برس بعد ہمیں مشکل ترین حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمیں قدرتی وسائل ڈھونڈنے اور ان کے درست استعمال کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل پر برابر توجہ دینی ہے۔ ہمیں مسائل کا بروقت ادراک کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرنے ہیں جو ہمارے مستقبل کو بہتر بنا سکیں۔ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جو ہمارے معاشرے کے تمام مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے ترقی کے نئے مواقع پیدا کریں۔ ہمارے ہاں ایسے ڈگری پروگرامز چل رہے ہیں جن کے بعد نوجوانوں کو بہتر روزگار نہیں ملتا لہٰذا جن پروگرامز کی مارکیٹ ڈیمانڈ کم ہے، ان پروگرامز کے طلبہ کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر کی لازمی تعلیم دینی چاہیے تاکہ وہ اپنا بہتر روزگار کما سکیں۔ہنر کی یہ تعلیم مارکیٹ ڈیمانڈ کے مطابق ہونی چاہیے تاکہ انہیں فوری روزگار یا پھر کاروبار کیلئے سیڈ گرانٹس اور حکومتی قرض جیسی سکیموں سے فائدہ مل سکے۔ ہر حکومت نوجوانوں کیلئے مختلف پروگرامز لاتی ہے، ہمیں ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو پائیدار ہوں۔ میرے نزدیک نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کیلئے حکومتی سطح پر لانگ ٹرم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ایسے سافٹ ویئر ہاؤسز اور ادارے قائم کیے جائیں جو طلبہ کو عالمی مارکیٹ سے لنک کریں۔ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مخالف نہیں ہوں لیکن اس پروگرام نے خواتین کو متاثر کیا ہے۔ ایک خاتون جو روزگار کیلئے سفر کرتی تھی،اسے کام کے مواقع ملتے تھے، نیا تجربہ حاصل ہوتا تھا، لوگوں سے مل کر اس کا کتھارسز ہو جاتا تھا، اس کی ذہنی و جسمانی صحت بہتر ہوتی تھی، وہ خاتون اب اس پروگرام کی وجہ سے گھر بیٹھ گئی۔ اگر اس پروگرام کو خواتین کے کام کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو فائدہ ہوگا۔ بیمار یا عمر رسیدہ خواتین جو کام نہیں کرسکتی، انہیں امداد دی جائے، باقی خواتین کی امداد کو کام کرنے سے مشروط کیا جائے۔ بہت سارے ممالک میں جب ادویات کا استعمال بڑ ھا تو انہوں نے پالیسی سازی سے لائف سٹائل میں تبدیلی پر توجہ دی۔لوگوں کے وزن بڑھنے سے جب ان کی صلاحیت میں کمی آئی اور شعبہ صحت پر بوجھ بڑھ رہا ہے تو بعض ممالک نے ٹیکس کو لوگوں کے وزن کے ساتھ منسلک کر دیا۔اس طرح کے چھوٹے چھوٹے اقدامات سے لوگوں کی صلاحیت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ میرے نزدیک بہترین منصوبہ بندی اور عملدرآمد سے غربت کا خاتمہ ممکن ہے، اسے ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر محمد ارشد
(سابق ریجنل چیئرمین، ایف پی سی سی آئی)
دور حاضر میں عالمی سطح پر مہنگائی اور غربت کی ایک بڑی وجہ جنگیں ہیں۔ یوکرین اور روس کی جنگ میں امریکا اور یورپ بھی بالواسطہ شریک ہیں جو اس کا خرچ بھی اٹھا رہے ہیں لہٰذا یہ جنگ یورپ کو مہنگی پڑ رہی ہے جس سے ان کے خزانے پر بوجھ بڑھا ہے جو تجارت کے ذریعے دوسرے ممالک کو منتقل ہورہا ہے۔ امریکا نے ٹیرف کا محاذ بھی کھول رکھا ہے۔ وہ اگر چین پر 100 فیصد ٹیرف لگاتا ہے تو چین کی پیداواری لاگت بڑھے گی جس کا اثر ہم پر بھی پڑے گا۔چین بڑی طاقت ہے جو اپنی عزت نفس کو قائم رکھنے کیلئے امریکا پر جوابی ٹیرف لگائے گا جو اس کے برابر ہی ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ چین کے پاس کتنی مالی طاقت ہے کہ وہ اپنی مارکیٹ بچانے کیلئے قیمت کو کم سے کم سطح پر لے جائے،اس کیلئے چین کو اپنا منافع مزید کم کرنا ہوگا۔ یہ قوی امکان ہے کہ چین یہ بوجھ برداشت کر لے گا لیکن یورپ میں اتنی طاقت نہیں ہے لہٰذا نہ صرف ان کے مقامی لوگوں کے لیے بلکہ دنیا کیلئے بھی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس کا اثر دوسرے ممالک اور پاکستان پر بھی ہوگا۔ اضافہ صرف لوگوں کے استعمال کی اشیاء میں ہی نہیں بلکہ انڈسٹری کیلئے درکار خام مال کی قیمت میں بھی ہوگا جس سے ہماری پیداواری لاگت بڑھ جائے گی۔ ہماری زرعی اجناس کیلئے بیج، کھادو کیڑے مار ادویات درکار ہوتی ہیں جو امپورٹ کی جاتی ہیں لہٰذا جب ان کی قیمت میں اضافہ ہوگا تو اجناس بھی مہنگی ہوںگی۔ مقامی سطح کی بات کریں تو حکومتی پالیسیاں مہنگائی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں ٹیکس کا نظام کاروبار پر بوجھ ڈالتا ہے۔ ڈبل ٹیکس، سپر ٹیکس سمیت مختلف اقسام کے ٹیکسوں کی وجہ سے اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ بوجھ عام آدمی کو منتقل ہوجاتا ہے جس سے اس کی قوت خرید کم ہوتی ہے اور زندگی متاثر ہوتی ہے۔ عالمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو اس وقت ایک بہترین اور جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسی منصوبہ بندی کرنی ہے جس سے کاروبار کو سازگار ماحول ملے۔ ہمارے بینکوں کی شرح سود بہت زیادہ ہے۔ اسے 5 سے 6 فیصد ہونا چاہیے، اس سے مہنگائی میں کمی آئے گی۔ اسی طرح ٹیکس میں اضافہ کے بجائے نئے فائلرز بنائے جائیں اور ٹیکس کے نظام سے ہراسمنٹ ختم کی جائے۔ جو پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود ہیں،ا ن کیلئے آسانی پیدا کی جائے اور ان کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے۔ ٹیکس سلیبز کے حساب خصوصی کارڈز جاری کیے جائیں اور زیادہ ٹیکس دینے والوں کو سرکاری محکموں میں پروٹوکول دیا جائے۔ ہمارے ٹیکسیشن کے نظام میں بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے، یقین ہے کہ حکومت اس پر کام کرے گی۔ تیل کی قیمتوں پر حکومت کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ 10 برس قبل ایک آسٹریلین کمپنی نے پاکستان میں سروے کرکے رپورٹ دی تھی کہ ہمارے لائن لاسز زیادہ ہیں۔ اگر بجلی کی بڑی تاروں کو اپ گریڈ کر دیا جائے تو پانچ ہزار میگا واٹ لائن لاسز کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس ضیاع کا بوجھ عوام پر ہی پڑتا ہے۔ اگر بجلی اور تیل کی قیمتوں پر توجہ دے جائے تو ٹرانسپورٹ کرایوں اور مارکیٹ میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی آئے گی۔ تیل پر بھی ٹیکس میں کمی لانی چاہیے۔ خبریں آرہی ہیں کہ پاکستان سے بھی تیل نکل آیا ہے، خدا کرے پاکستان اس میں خود کفیل ہو جائے اور ہماری تیل کی امپورٹ ختم ہو جائے۔
عبداللہ ملک
(نمائندہ سول سوسائٹی)
17 اکتوبر 1992ء کو اقوام متحدہ کی جنرل میں قرارداد نمبر 47/196 منظور ہوئی جو غربت کے خاتمے کے عالمی دن کے حوالے سے تھی۔ اس دن سے لے کر آج تک 17 اکتوبر کو دنیا بھر میں ہر سال غربت کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں اور معاشرے کے دیگر افراد کے درمیان مثبت ڈائیلاگ کا فروغ ہے کہ کس طرح لوگوں کو غربت سے نکالنا ہے اور ان کی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ ایسے افراد جو تعلیم، صحت، سماجی اور معاشی انصاف سے محروم ہیں، ان کیلئے ایسے اقدامات اٹھانے ہیں تاکہ وہ ایک بہتر زندگی گزار سکیں جہاں انہیں ان کے بنیادی انسانی حقوق میسر ہوں۔ ہر سال عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک یہ اعادہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے ملک میں غربت کے خاتمے کیلئے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کی روشنی میں تسلسل کے ساتھ مثبت اورتعمیری پالیسیاں بناکر لوگوں کو سماجی تحفظ، تعلیم، صحت، چھت و دیگر سہولیات دینے کیلئے وسائل پیدا کریں گے ۔ ہم نے بھی اس قرارداد پر دستخط کر رکھے ہیں لہٰذا جہاں دنیا عالمی سطح پر اقدامات اٹھا رہی ہے وہاں پاکستان کی حکومت ایسے اقدامات اٹھانے کی پابند ہے جن سے غریب آدمی کی زندگی کو آسان بنایا جائے گا، اس کی مشکلات کو کم کیا جائے گا،ا سے تعلیم اور صحت کی سہولیات دی جائیں گی تاکہ وہ ایک عام شہری کی طرح زندگی گزار سکے۔ غریب اور کم آمدنی والے افراد کی مدد، سماجی اور معاشی انصاف کی فراہمی اور پائیدار معاشی ترقی کے تسلسل سے پاکستان میں غربت میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ دنیا کی 9 فیصد اور پاکستان کی 44.7 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔ دنیا میں 652 ملین انتہائی غریب افراد کی فی کس روزانہ آمدن 2.15 ڈالر ہے۔پاکستان میں 107.95 ملین غریب افراد کی غربت کی وجوہات میں کم آمدنی، وسائل میں کمی، بے روزگاری، مہنگائی، تعلیم اور صحت کی عدم فراہمی ، سماجی ناہمواری، کرپشن، بیڈ گورننس و دیگر شامل ہیں۔پاکستان کے سرکاری و نجی شعبے میں 44.7 فیصد آبادی کے لیے مواقع نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری غربت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔دیہات میں 36.6 فیصد جبکہ شہروں میں 17.8 فیصد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ ورلڈ بینک کے اعداد و شمار ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ غربت کی سب سے بڑی وجہ تعلیم اور صحت کا نہ ہونا ہے۔ ہمارے ہاں امیر اور غریب کے لیے ہر سطح پر فرق ہے۔ ہمارا انصاف بھی دونوں کیلئے الگ الگ ہے۔ آگے بڑھنے کے مواقع اور وسائل کی بات کریں تو 44.7 فیصد لوگوں کیلئے یہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہمارے وسائل کرپشن کی نذر ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے عام آدمی کو کچھ مل نہیں رہا، اس کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا گورننس کا ماڈل انتہائی ناقص ہے جو یکساں بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے لائی جانے والی سکیموں میں تسلسل نہیں ہے۔ حکومت بدلنے کے ساتھ ہی سب کچھ بدل جاتا ہے۔ نئی حکومت اپنے الیکشن اور عوامی پذیرائی حاصل کرنے کیلئے نئے منصوبے لاتی ہے۔ اس رویے کی وجہ سے کافی نقصان ہوا ہے۔ 26 ویں ترمیم کے بعد ہر پاکستانی شہری کو صاف آب و ہوا مہیا کرنا ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ ماحولیاتی اور قدرتی تبدیلیوں اور آفات کی وجہ سے بھی غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کرونا وباء کی وجہ سے پاکستان کے غریب افراد میں 10 ملین کا اضافہ ہوا۔ کلاؤڈ برسٹ اور سیلاب کی وجہ سے لوگوں کی زندگی پر برے اثرات پڑے لہٰذا اب ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف پر صحیح معنوں میں کام کرکے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا جائے۔ اقوام متحدہ کے ممالک کو پائیدار ترقی کے اہداف2030ء تک حاصل کرنے ہیں اور غربت کا خاتمہ کرنا ہے۔ پاکستان نے رواں سال کے بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے 539بلین روپے مختص کیے تاکہ شدید غریب افراد کو امداد پہنچائی جاسکے۔ اس بجٹ میں 27 فیصد اضافہ کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ احساس کفالت پروگرام کا آغاز بھی کیا گیا ہے۔ نیشنل پاورٹی گریجوایشن پروگرام ، پاورٹی ایلیویشن پلان، سافٹ لونز، فنڈز سمیت حکومت نے ایسے بیشتر منصوبوں کا آغاز کیا ہے جن سے غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔ حکومت نے ٹارگٹڈ پالیسیاں بنائی ہیں جو مارجنلائزڈ کمیونٹیز، خواتین اور بچوں کیلئے ہیں تاکہ انہیں غربت سے نکالا جائے اور خود مختار بنایا جائے۔ قدرتی آفات اور امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے ہمیں غربت کے خاتمے کے لیے عالمی اہداف حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن دونوں مل کر بہتر کردار ادا کریں تو ملک کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ ہمیں دہشت گردی کی لہر نے متاثر کیا ہے۔ ہم نے بھارت کے ساتھ جنگ لڑی، اب افغانستان کے ساتھ معاملات کشیدہ ہیں۔ ایسی غیر یقینی کی صورتحال میں مسائل پر قابوپانا مشکل ہوتا ہے، اس کے معیشت پر بھی برے اثرات ہوتے ہیں۔ n