افغانستان کے بدلتے رویے اور پاکستان کی نئی آزمائش

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات دو ہمسایہ ممالک کے درمیان سفارتی روابط نہیں بلکہ تاریخی، تہذیبی مشترکات بھی ہیں۔ اس تاریخ میں اخلاص بھی ہے، قربانیاں بھی ، غلط فہمیاں بھی ہیں اور دغابازیاں اور مکاریاں بھی ہیں۔

دونوں ملکوں کے عوام بھی مذہباً مسلمان ہیں جب کہ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتو بیلٹ والے ایریاز کے لوگوں کی زبان، ثقافت اور روایات بھی افغانستان کے ان علاقوں کے ساتھ ہیں جو پاکستان کی سرحد سے متصل ہیں جب کہ شمال مشرقی افغانستان میں تاجک،ازبک، منگول، گجر، پامیری اور دیگر اقوام آباد ہیں۔

وقت کے تغیر نے ان رشتوں میں ایسی دراڑیں ڈال دی ہیں جنھیں پُر کرنے کے لیے اب جذبات نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ اور طویل المدتی پالیسی کی ضرورت ہے۔جب 1979 میں سوویت یونین نے افغانستان میں قدم رکھا تو پورے خطے کا سیاسی منظرنامہ بدل گیا۔ وہ جنگ جسے دنیا نے ’’سرد جنگ‘‘ کے اختتام کی علامت سمجھا دراصل جنوبی ایشیا کے لیے نئی مصیبتوں کا آغاز بن گئی۔ لاکھوں افغان شہری خوفزدہ ہوکر پاکستان آگئے۔

پاکستان نے ایک برادر ملک کے طور پر اپنے دروازے کھول دیے۔ اُس وقت کے حالات میں یہ قدم انسانی ہمدردی اور بردار اسلامی ملک کے عوام کے تحت درست تھا لیکن یہ فیصلہ آنے والی دہائیوں تک ہمارے سماجی، معاشی اور سیکیورٹی ڈھانچے پر گہرے اثرات چھوڑ گیا۔

افغان جنگ کے دوران پاکستان عالمی سیاست کا محور بن گیا۔ پاکستان کمیونسٹ سوویت یونین کے براہ راست ٹارگٹ میں آگیا،اسی لیے پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ کہا جاتا ہے۔امریکا اور مغربی دنیا نے کمیونسٹ سوویت یونیں کے اثر کو روکنے کے لیے افغانستان کے جاگیرداروں، ملاؤں اور افغان شاہی اشرافیہ کو منظم کیا ، انھیں مالی امداد، اسلحہ دیا، گوریلا جنگ لڑنے کی تربیت اور جنگی حکمتِ عملی پاکستان نے مہیا کی، پاکستان نے نہ صرف عام افغانوں کو اپنے ہاں پناہ دی بلکہ مجاہدین کی قیادت اور شاہی افغان اشرافیہ کو بھی پناہ فراہم کی۔

ماضی کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ کے گٹھ جوڑ نے اپنا فائدہ تو سوچا لیکن ہمارے معاشرے میں اسلحہ، انتہا پسندی اور بیرونی اثرات کے بیج بھی بو دیے۔ یہ وہ دور تھا جب ’’جہاد‘‘ کو ایک نعرہ بنا کر ریاستی پالیسی کا حصہ بنا دیا گیا اور جب جنگ ختم ہوئی تو وہی بندوقیں، وہی انتہاپسند نظریات اور وہی تربیت یافتہ گروہ ہمارے ہی امن کے دشمن بن گئے۔

2001 میں نائن الیون کے بعد ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اقوام عالم کا ساتھ دیا لیکن اس جنگ نے ہماری سرزمین کو بھی لہولہان کر دیا۔ ہزاروں قیمتی جانیں ضایع ہوئیں، اربوں ڈالر کا معاشی نقصان ہوا اور سب سے بڑھ کر ہماری سرحدیں غیر محفوظ ہو گئیں۔یہ وہی سرحد تھی جسے کبھی ہم پُرامن سمجھتے تھے۔ ہماری توجہ ہمیشہ مشرقی محاذ یعنی بھارت کی جانب رہی۔ لیکن آج مغربی سرحد بھی ہمارے لیے دردِ سر بن چکی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی کہ افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رہیں۔ مگر اب حالات اس کے برعکس جا رہے ہیں۔

افغانستان کی موجودہ قیادت کا رویہ محض سرد مہری پر مشتمل نہیں ہے بلکہ معاندانہ ہوگیا ہے۔سرحد پار سے فائرنگ، دہشت گردوں کی دراندازی، اور ہمارے خلاف غیرضروری بیانات ایک نئی بے چینی کو جنم دے رہے ہیں۔حالانکہ افغانستان میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد یہ امید تھی کہ طالبان حکومت ایک برادرانہ رویّہ اپنائے گی لیکن عملی صورت حال اس کے الٹ دکھائی دیتی ہے۔

پاکستان نے برسوں افغان قیادت کو سفارتی، انسانی اور معاشی سطح پر سہارا دیا مگر آج ہمارے ساتھ وہی میزبانی دشمنی میں بدلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ پاکستان میں مٹھی بھر گروہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنے وطن میں انتشار اور بدامنی پھیلانے کی کوشش میں ہے اور اس کے پیچھے وہی بیرونی ہاتھ کام کر رہے ہیں جو ہمیشہ اس خطے میں عدم استحکام کے خواہاں رہے ہیں۔

بلوچستان کی صورتحال بھی اسی منصوبہ بندی کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان کے دشمن یہ جانتے ہیں کہ اگر بلوچستان میں انتشار پیدا کیا جائے تو پورا ملک غیر مستحکم ہو سکتا ہے۔

بھارت جیسے ممالک اب صرف مشرق سے نہیں بلکہ مغرب سے بھی وار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی سرحد ان قوتوں کے لیے ایک نیا محاذ بن چکا ہے۔اگر ہم نے اپنی مغربی سرحد پر نرم پالیسی اختیار کی تو یہ خطرہ کنٹرول سے باہر بھی ہوسکتا ہے۔ یہ صورتحال بطور ریاست ہمارے لیے نہایت خطرناک ہے کیونکہ افغانستان اندرونی طور پر غیر مستحکم ہے اور وہاں مختلف نسلی و علاقائی دھڑوں کے درمیان طاقت کی رسہ کشی جاری ہے جب کہ دہشت گرد گروہوں کی بھی اس ملک میں سخت گرفت موجود ہے۔

پاکستان کی سیاسی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ صرف بیانات اور سفارتی نوٹس کافی نہیں ہیں۔ ہمیں افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی نئی بنیاد رکھنی ہوگی۔ ایک ایسی بنیاد جو جذبات سے زیادہ زمینی حقائق پر استوار ہو۔ ہمیں مستقبل کے تقاضوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ اب وہ وقت نہیں رہا جب ہم صرف ’’برادر اسلامی ملک‘‘ کے نعرے پر اپنی سرحدی پالیسی بنا سکیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ افغان قیادت کے مفادات ہمیشہ پاکستان سے ہم آہنگ نہیں رہے اور نہ ہی وہ مستقبل قریب میں ہمارے مفاد میں ہوں گے۔

اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان ایک نئی افغان پالیسی تشکیل دے۔ ایسی پالیسی جو نہ صرف سرحدی سلامتی کو یقینی بنائے بلکہ افغانستان کے عوام کو بھی احساس دلائے کہ پاکستان ان کا دشمن نہیں بلکہ ایک بااعتماد ہمسایہ ہے۔ ہمیں اپنے قومی، عوامی و ریاستی مفادات کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔ ہمیں اپنی داخلی یکجہتی کو مضبوط بنانا ہوگا۔ ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان ہی بیرونی چیلنجز کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اگر ہم اندر سے کمزور ہوں گے تو بیرونی طاقتیں ہمیں آسان ہدف سمجھتی رہیں گی۔

پاکستان کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ماضی کے بوجھ تلے دب کر رہنا چاہتا ہے یا ایک نئے، خودمختار اور محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے۔ اگر افغانستان سے دشمنی ہمارے مفاد میں نہیں تو پھر اندھی دوستی بھی تباہ کن ثابت ہوگی ہے۔ ہمیں دو انتہاؤںکے درمیان ایک سمجھدار، متوازن، دانشمندانہ اور پائیدار حکمتِ عملی اختیار کرنی ہوگی وہ راستہ جس میں قومی سلامتی بھی محفوظ رہے اور خطے کا امن بھی قائم ہو۔

Similar Posts