کرنل صاحب کی کہانی

اُن کی عمر91 برس تھی، جب پہلی بار اُن سے شرف نیاز حاصل ہوا۔اُن کی صحت قابل رشک تھی، بلکہ نظر کی عینک تک نہیں تھی۔

اونچا لمبا قد، گندمی رنگ، گالوں پر اب بھی جوانی کے سہانے دنوں کی سرخی کے آثار موجود تھے۔ بڑھاپے کی کمزوری کے باوجود لہجہ دبنگ، مضبوط اور دوٹوک۔ دوران گفتگو جوش میں آجاتے، یا کسی نکتے پر زیادہ زور دینا چاہتے، تو بولتے بولتے اردو کا گیئر بدل کر یکدم انگریزی کا گیئر لگا دیتے تھے۔ مگر اُن کی جس خوبی نے مجھے اُس روز سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ اس عمر میں بھی اُن کے چہرے کی بشاشت اور مزاج کی لطافت تھی۔

قائداعظم پر دستاویزی فلم کے لیے اُن کی گفتگو ریکارڈ کرنے، اورکیمروں، لائٹوں، میک اپ اور مائیک کے تکنیکی جھمیلوں میں ڈھائی تین گھنٹے صرف گئے، مگر مجال ہے کہ اس دوران اُن کے چہرے پر کوئی اکتاہٹ کا معمولی سا تاثر بھی ابھرا ہو۔

وہ اس تھکا دینے والی مشق میں جوانوں کی طرح چاق و چوبند بیٹھے رہے؛ بلکہ مجھے یاد ہے، جب وہ 1937ء میںمسلم لیگ کے لکھنو اجلاس کی آنکھوں دیکھی روداد بیان فرما چکے، اور اس پر میں نے جھجکتے جھجکتے پوچھا،’سر، آپ کی عمر کیا ہوگی؟ تو میری اس بات پر انھوںنے بھرپور قہقہہ لگایا اورکہا،Just 91 ۔

 کرنل سید امجد حسین صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ شیرخوارگی ہی میں والدین کے سایہ سے محروم ہو گئے تھے۔ سن شعور کو پہنچے، تو چچا مسلم ٹاون لاہور اپنے گھر لے آئے اور یہاں مسلم ہائی اسکول میں داخل کرا دیا۔ میٹرک کے بعد اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں آ گئے۔

یہ وہ دور ہے، لاہور کی تجارت پر ان دنوں ہندووں کی اجارہ داری تھی۔ مسلمانوں میں گاندھی اور نہرو کی ٹکر کا کوئی راہ نما دور دور تک نظر نہیں آتا تھا۔ علامہ اقبال اور ظفرعلی خاں کی سیاست بس شاعرانہ حد تک تھی۔ 1935کے الیکشن کے بعد ہندوستان کے بیشتر صوبوں میں کانگریسی حکومتیں قائم ہو چکی تھیں۔ پنجاب میں یونی نسٹ پارٹی کا راج تھا۔

ان مایوس کن حالات ایک روز سید امجد اپنے دوست حمید نظامی کے ہمراہ علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوتے اور راہ نمائی کے طالب ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں، صرف بیرسٹر محمد علی جناح ہی مسلمانوں کی منجدھار میں پھنسی کشتی کو ساحل مراد تک پہنچا سکتے ہیں، جو اس وقت لندن میں ہیں، تاہم قوی امید ہے کہ وہ جلد ہندوستان لوٹ آئیں گے۔ وہ ان کو تاکید کرتے ہیں کہ جب بیرسٹر جناح واپس لوٹیں تو فوراً ان کے پاس چلے جائیں کہ وہی مسلمانوں کے نجات دہندہ ہیں ۔

چنانچہ جیسے ہی بیرسٹر جناح واپس آتے اور مسلم لیگ کی تنظیم نوکے لیے لاہور تشریف لاتے ہیں تو سید امجد اور حمید نظامی ان سے ملنے فلیٹیز ہوٹل پہنچ جاتے ہیں۔ علامہ اقبال کا حوالہ دینے پر بیرسٹر جناح اُن کوکمرے میں بلا لیتے ہیں۔ دونوں نوجوان انھیں اسلامیہ کالج میں خطاب کی دعوت دیتے ہیں۔ بیرسٹر جناح کہتے ہیں کہ جب اُن کے پرنسپل دعوت دیں گے، تب وہ اس پر سوچیں گے، سردست وہ چلے جائیں۔

نوجوان مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں، مگر بیرسٹر جناح اُن کی طرف دیکھے بغیر دوبارہ اپنے کام میں محو ہو جاتے ہیں۔ قائداعظم سے اس ’ملاقات‘ کو یاد کرتے ہوئے سیدامجدکہا کرتے تھے، ’’اس روز جب ہم اُن کے کمرے سے باہر آئے، تو ہمیں اس پر ذرہ ملال نہ تھا کہ قائداعظم نے ہم سے مصافحہ نہیں کیا؛ کیونکہ ہمارا دل گواہی دے رہا تھا کہ علامہ اقبال نے سچ کہا تھا، یہی ہمارے نجات دہندہ ہیں، انھی کے جیسا پراعتماد ، اکل کھرا اور سخت گیر راہ نما گاندھی اور نہرو کے مقابلے میں مسلمانوں کی قیادت کرسکتا ہے‘‘۔

واپس آ کے سید امجد اور حمید نظامی قائداعظم کی کالج آمد کا راستہ ہموار کرنے کی بھرپور سعی کرتے ہیں، جس کی پاداش میں پرنسپل دونوں کو کالج سے ’معطل‘ دیتے ہیں۔ اس واقعہ کی اطلاع مسلم لیگ کے اعلیٰ حلقوں تک پہنچتی ہے، تو قائداعظم کی ہدایت پر دونوں نوجوانوں کو مسلم لیگ کے 1937کے لکھنو اجلاس شرکت کے لیے خصوصی پاس اور ریلوے ٹکٹ جاری کیے جاتے ہیں۔ سید امجد 23 مارچ 1940 کے منٹو پارک لاہور کے تاریخی جلسے میں بھی حاضر ہوتے ہیں، بلکہ اس کی جو واحد فوٹیج ٹی وی پر چلتی ہے، وہ بھی انھوں نے ہی وڈیو کیمرہ خرید کے بنوائی تھی۔

یہ وہ دور تھا، جب ہندوستانی مسلمانوں کے پاس ملازمت کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے، سواے فوج میں بھرتی کے، جو ہندوستان سے باہر برطانوی استعمار کی ضرورت تھی، اور اس کے لیے پنجاب کے کڑیل جوانوں کو ان کے قد کاٹھ، چوڑی چھاتی اور مضبوط ڈیل ڈول کی وجہ سے ترجیح دی جاتی تھی۔ چنانچہ ایم اے کرنے کے بعد سید امجد بھی فوج میں بھرتی ہو کے سمندر پارمحاذ جنگ پر چلے گئے۔ لیکن انگریز سرکار کی نوکری بھی اپنے قائد سے ان کے عشق کو کم نہ کر سکی۔

قائداعظم سے ملاقات کے لیے گاندھی مالا بار آتے ہیں، تو سید امجد بھی، جو ان دنوں ہندوستان میں تعینات تھے، یہ تاریخی منظر دیکھنے کے لیے اپنے سینئر انگریز افسر کے ہمراہ مالابار پہنچ جاتے ہیں۔ 1947 میں کرنل صاحب کو مہاجرین کے لیے آرمی ٹرانسپورٹ اینڈ سپلائی کا انچارج مقررکیا جاتا ہے۔ 1957 سے 1959تک انڈونیشیا میں پاکستان کے فوجی اتاشی کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں۔ 1997 میں پاکستان کی گولڈن جوبلی پر ان کو طلائی تمغہ، جب کہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے خصوصی ایوارڈ سے سرفراز کیا جاتا ہے۔

کرنل امجد صاحب سے دوسری ملاقات بھی اتفاق سے ایک دستاویزی فلم کی تیاری کے دوران ہوئی۔ اب وہ پچانویں برس کے تھے۔ اس روز ان کے بیٹے مشاہد حسین بھی اسلام آباد سے آئے ہوئے تھے۔ یوں توکرنل صاحب کے بیٹے مواحد حسین ہو بہو اُن کی تصویر معلوم ہوتے ہیں، پر مشاہد حسین سے ان کو خاص لگاؤ تھا۔

اس روز مگرکرنل صاحب کو دیکھ کر دل بہت اداس ہوا۔ آج وہ اس خشک ٹہنی کی طرح کمزور اور ناتواں محسوس ہو رہے تھے، جو ہوا کے کسی بھی تیز جھونکے سے ٹوٹ کے گر سکتی تھی۔ مگر میں نے دیکھا کہ قائد اعظم کا ذکر آنے پر اُن کا چہرہ اب بھی تمتما اٹھتا اور آواز جوش سے بھر جاتی تھی۔ انھی دنوں اُن کی96 ویں سالگرہ پر شجاعت حسین صاحب اور پرویز الٰہی صاحب نے اپنے فارم ہاوس پر ایک ’سرپرائز پارٹی‘ رکھی، جس میں کرنل صاحب سمیت ہم صرف چھ لوگ تھے۔ پرویزالٰہی صاحب کسی وجہ سے نہ پہنچ سکے۔ مشاہد صاحب اور مواحد صاحب موجود تھے۔

ایک اورصاحب بھی تھے، جن کا نام یاد نہیں آرہا۔ کرنل صاحب وہیل چیئر پر آئے تھے۔ فارم ہاوس کے اندر دور تک پھیلے ہوئے ہرے بھرے باغ میں انھوں نے سالگرہ کا کیک کاٹا۔ سب نے تالیاں بجا کے ان کو مبارک باد دی، مگر وہ اس روز خاموش ہی رہے۔

شاید وہ زندگی کی اس منزل پر تھے، جہاں کوئی پارٹی ’’سرپرائز پارٹی‘‘ نہیں رہتی، اور آدمی کو سب کچھ ایک جیسا، بے حقیقت اور بوجھل سا محسوس ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ان کے ہونٹوں سے معمولی سا لعاب بے اختیار باہر بہہ نکلا، تومشاہد صاحب بے تابانہ آگے بڑھے اور رومال سے پونچھ دیا، جیسے بچوں کو چہرہ صاف کرتے ہیں۔

 کرنل صاحب نے چہرہ موڑ کے بیٹے کی طرف دیکھا۔ بس یہی ایک لمحہ تھا، جب ان کی آنکھوں کی چمک عود کر آئی، وہ چمک جو زندگی سے بتدریج دور ہوتے ہوئے بوڑھے باپ کی آنکھوں میں اس وقت نمودار ہوتی ہے، جب بیٹے کی صورت میں وہ خود کو پھر سے مضبوط، پیہم رواں اور جاوداں دیکھتا ہے۔

یہ آخری بار تھا، جب میں نے ان کو دیکھا۔ اگلے سال جب اس ’سرپرائز پارٹی‘ میں موجود ہم لوگ ان کے گھر بیٹھے تھے، تو آج یہاں ان کے لیے ہر طرف سے لوگوں کا ہجوم ہو رہا تھا، مگر آج ہمارے کرنل صاحب کہیں موجود نہیں تھے، ان کی کرسی خالی تھی، ’دیکھ خالی جا کہیں گے برسوں اہل روزگار، میرؔ اکثر دل کا قصہ یاں کہا کرتا تھا رات‘  ؎

کوس رحلت بکوفت دست اجل

ای دوچشمم، وداع سر بکنید

Similar Posts