لیاری کے ساتھ مذاق کیوں؟

کراچی کو اگر روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے تو لیاری کو ان سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس دور میں جب دنیا خلاؤں کو تسخیر کر رہی ہے، لیاری کے نوجوان بنیادی تعلیمی ڈھانچے کے منتظر ہیں۔ شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی لیاری کی نئی عمارت کا منصوبہ کئی برس سے تاخیر کا شکار ہے۔ شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی لیاری کی کلاسیں آج بھی اُس عمارت میں چل رہی ہیں جو کبھی لیاری ڈگری کالج ہوا کرتا تھا۔

ایک عمارت جو کالج کے لیے بھی ناکافی تھی، آج ایک پوری یونیورسٹی کا بوجھ اٹھا رہی ہے۔ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اختر بلوچ، پیپلز پارٹی لیاری کے رہنما حاجی قاسم بلوچ اور رکن سندھ اسمبلی لیاقت علی آسکانی کی مشترکہ کوششوں سے چار سال قبل دیھہ گابوپٹ میں دو سو ایکڑ اراضی حاصل کی گئی۔

یہ ایک بڑا سنگ میل تھا۔ اتنی وسیع زمین کسی بھی جدید یونیورسٹی کے قیام کے لیے ایک نایاب موقع تھی، لیکن افسوس، یہاں کہانی رک گئی۔ سندھ حکومت کو ہاکس بے کے علاقے میں نئے کیمپس کی تعمیر کے لیے فنڈز فراہم کرنے تھے مگر ابھی تک فنڈز فراہم نہیں کیے گئے۔ ہاکس بے کے علاقے سے واقفیت رکھنے والے صحافی کہتے ہیں کہ اگر ہاکس بے کے علاقے میں یہ زمین طویل عرصہ تک خالی رہی تو لینڈ مافیا کسی وقت بھی اس زمین پر قبضہ کر لے گی۔ سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ فنڈز کی منظوری میں تاخیر کو فوری طور پر ختم کرے۔ لیاری کے باسیوں کا صبر اب امتحان کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔

شہید بے نظیر بھٹو کا نام محض ایک تختی پر نہیں بلکہ عمل، خدمت اور ترقی کے نشان کے طور پر زندہ رہنا چاہیے اور اس کا آغاز شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی لیاری کی مستقل عمارت کی تعمیر سے ہو سکتا ہے۔ بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کو قائم ہوئے طویل عرصہ گزر گیا، اس وقت یونیورسٹی میں صرف چار فیکلٹیز قائم ہیں۔ ان فیکلٹیز میں کامرس، پبلک ایڈمنسٹریشن، بزنس ایڈمنسٹریشن اور کمپیوٹر سائنس اور آئی ٹی کے شعبہ، فارمیسی، انگریزی، تعلیمات، بین الاقوامی تعلیمات اور اسپورٹس سائنس کے شعبہ جات قائم ہیں۔ اس وقت یونیورسٹی میں مستقل اساتذہ کی تعداد 32 ہے جب کہ دیگر تمام جز وقتی اساتذہ ہیں۔ یونیورسٹی میں 4500 کے قریب طالب علم زیرِ تعلیم ہیں۔

اس سال کے شروع میں نئے وائس چانسلر کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سابقہ ڈگری کالج کی عمارت کی تزئین و آرائش ہوئی ہے اور یو ایس فنڈز کے ذریعے یہ عمارت تعمیر ہوئی ہے مگر یونیورسٹی میں اب بھی سوشل سائنسز کے مضامین کے علاوہ اردو، سندھی اور بنیادی سائنسز کے مضامین قائم نہیں ہوئے، اگر ہاکس بے کی 200 ایکڑ زمین پر جدید عمارتیں تعمیر کی جائیں تو بہت سے نئے شعبہ جات قائم ہوسکتے ہیں۔

خاص طور پر ساحلِ سمندر کے ساتھ ہونے کی بناء پر میرین، بائیولوجی، فشریز، ارضیات اور ماحولیاتی تبدیلی کے خطے پر ہونے والے اثرات کی تحقیق کے لیے جدید تحقیقی مراکز قائم ہوسکتے ہیں۔ خاص طور پر اس کیمپس میں بحیرہ عرب پر تحقیق کے لیے اسٹیٹ آف آرٹ سینٹر قائم ہوسکتے ہیں۔ اس عمارت میں اگر طلبا و طالبات کے لیے نئے ہاسٹل تعمیر ہوجائیں تو بلوچستان سے ہزاروں طالب علم یونیورسٹی میں داخلے لے سکتے ہیں۔ لیاری کو آج کسی امداد، کسی ’’ریلیف چیک‘‘، یا جھوٹے وعدے کی نہیں، بلکہ ایک مکمل ’’ تعلیمی پیکیج‘‘ کی ضرورت ہے۔

اسکول، کالج، یونیورسٹیز، ووکیشنل سینٹرز، لائبریریاں، یہ سب وہ بنیادیں ہیں جن پر لیاری کے تباہ حال سماج کو دوبارہ کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی لیاری کی مستقل اور جدید عمارت کا قیام، اس تعلیمی پیکیج کا نقطہ آغاز ہونا چاہیے۔ یہ کوئی احسان نہیں، یہ اس قوم کا قرض ہے جس نے ہر سیاسی تحریک میں اپنا خون دیا اور اگر آج بھی لیاری کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو یہ محض لاپروائی نہیں بلکہ تاریخی جرم ہوگا۔

 آج سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور پیپلز پارٹی وہ جماعت ہے جو ہمیشہ لیاری سے ووٹ لے کر اقتدار میں آئی۔ قومی اسمبلی ہو یا سندھ اسمبلی، لیاری کے باسیوں نے ہمیشہ تیر کے نشان پر مہر لگائی۔ یہ وہی لیاری ہے جہاں بے نظیر بھٹو شہید کو ماں کہا جاتا تھا۔ مگر افسوس! آج اسی بے نظیر بھٹو کے نام پر قائم یونیورسٹی کی مستقل عمارت فنڈز کی منظوری نہ ملنے کے باعث تعطل کا شکار ہے۔

یہ کیسی بے حسی ہے کہ چار سال قبل حاصل کی گئی دو سو ایکڑ زمین اب بھی خالی پڑی ہے اور نوجوان اب بھی پرانی ڈگری کالج کی تنگ عمارت میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں؟ لیاری کو نظر انداز کرنا محض ایک سیاسی بھول نہیں، بلکہ تاریخی غلطی ہے۔

 یونیورسٹی کے بارے میں تحقیق کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ نئے کیمپس کا محل وقوع یونیورسٹی کو ملک کی دیگر یونیورسٹیوں سے منفرد کرسکتا ہے اور سمندر کے قریب ایسا قدرتی ماحول بہت کم یونیورسٹیوں کو میسر آتا ہے۔ جس علاقے نے جمہوریت کی بقا کے لیے ہر دور میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں، اگر آج بھی وہ بنیادی سہولیات سے محروم ہے تو یہ نہ صرف حکومتی نااہلی ہے بلکہ عوام کے اعتماد سے مذاق بھی۔ یونیورسٹی کی عمارت کی تعمیر اب ’’اختیار‘‘ نہیں، ’’ذمے داری‘‘ ہے۔

شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی لیاری کی نئی عمارت کی تعمیر میں تاخیر صرف تعلیمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ لیاری کے نوجوانوں سے ان کے خواب چھیننے کے مترادف ہے، یہ تاخیر علم دشمنی ہے۔ یہ ایک ایسے زخم پر نمک چھڑکنے جیسا ہے جو برسوں کی محرومیوں سے ابھی تک بھرا نہیں۔ لیاری کا سفر قتل و غارت سے کتابوں کی طرف شروع ہو چکا ہے، لیکن یہ سفر تبھی مکمل ہوگا جب ریاست اور حکمران اسے تسلیم کریں گے، جب شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کی نئی عمارت بنے گی اور جب لیاری کے نوجوان ہتھیار نہیں بلکہ قلم تھامیں گے۔ یہ وقت ہے عمل کا، ورنہ تاریخ خاموش نہیں رہے گی۔

Similar Posts