ہماری تاریخ گواہ ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر جتنی جنگ بندیاں ہوئیں اتنی ہی بار ان کا گلا گھونٹا گیا، سوال یہ نہیں ہے کہ جنگ بندی ہو گئی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا امن کا یہ نازک سا پھول ظلم طاقت اور سیاست کی گرد سے بچ سکے گا؟گزشتہ برسوں کی طرح اس بار بھی جنگ بندی چند شقوں پر مبنی ہے۔
قیدیوں کا تبادلہ ،اسرائیلی فوج کا جزوی انخلا اور انسانی امداد کی اجازت۔ بظاہر یہ خوش آیند ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان الفاظ کے پیچھے نیت کتنی سچی ہے؟ کیا ان تحریروں کو عالمی طاقتیں تسلیم کریں گی؟ اور کیا فریقین واقعی ان پر عمل کریں گے؟ماضی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں اوسلو معاہدہ ہوا ،کیمپ ڈیوڈ سجا لیکن امن لہو لہان رہا۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک کسی معاہدے کی ہر شق کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہ کیا جائے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی نہ بنایا جائے وہ محض کاغذ ہی رہتا ہے۔دوسرا سوال سیاسی نیت کا ہے کیا اسرائیلی حکومت اس معاہدے کو سنجیدگی سے لے گی؟ یا نیتن یاہو جیسے سیاستدان اسے محض وقتی دباؤ سے نکلنے کا راستہ سمجھیں گے؟ کیا حماس کی قیادت کے پاس اتنی قوت ہے کہ وہ تمام گروپوں کو ایک موقف پر لا سکے؟ یا پھر غزہ کی سرزمین پر درجنوں مسلح گروہ کسی ایک نظم میں بندھنے سے انکاری رہیں گے؟
یہ کوئی نیا منظر نہیں ہماری دنیا کی سیاست اپنے مفادات کی گٹھری باندھے انسانی جانوں کو تختہ مشق بناتی آئی ہے۔ فلسطینیوں کا دکھ ان کے بچوں کی لاشیں، ان کی ماؤں کی چیخیں صرف وہی سنتے ہیں جن کے دل میں انسانیت ابھی سانس لیتی ہے۔
باقی سب کے لیے یہ صرف بین الاقوامی مسئلہ ہے جس پر اجلاس تو ہوتا ہے عمل نہیں۔اگر واقعی یہ جنگ بندی دیرپا ہو تو سب سے بڑا سوال یہ ہوگا کہ نگران کون ہوگا؟ کیا اقوامِ متحدہ اپنی وہ حیثیت واپس حاصل کر چکی ہے جہاں وہ متحرک کردار ادا کر سکے؟ کیا امریکا اور یورپی یونین اس امن کو مضبوط کرنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے تیار ہیں؟ یا ان کے الفاظ اب بھی دوغلے ہوں گے جب تک جنگ بندی کی خلاف ورزی پر فوری کارروائی نہ کی جائے اور کسی فریق کو یہ اعتماد نہ ہو کہ دنیا اس کے ساتھ کھڑی ہے امن ایک کمزور شمع کی طرح ہوا کے رحم و کرم پر رہتا ہے۔
ذرا ان ماؤں کا حال سوچیں جو اپنے بچے دفن کر چکی ہیں۔ ان بچوں کا تصور کریں جن کی آنکھوں نے اسکول کی جگہ صرف ملبہ دیکھا۔ وہ گھر جو اب صرف مٹی ہیں۔ جنگ بندی ان سب کے لیے ہے مگر یہ تب ہی دیرپا ہوگی جب ان کی زندگی میں حقیقی تبدیلی آئے گی۔ اگر صرف بمباری رکنے کو امن سمجھا گیا تو یہ فریب ہے۔ امن وہ ہے جب اسپتال ہوں اسکول کھلیں بچے کھیلیں اور کسی فلسطینی ماں کو خوف نہ ہو کہ اگلی صبح اس کا بیٹا واپس آئے گا یا نہیں۔
امن کی پہلی شرط ہے انصاف۔ جب تک فلسطینی عوام کو ان کا حق ان کی زمین، ان کی خودمختاری اور ان کی عزت واپس نہیں ملتی، کوئی جنگ بندی دیرپا نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک نکتہ ہے جس پر دنیا آنکھیں بند کر لیتی ہے۔
اسرائیلی مظالم، بستیوں کی تعمیر، جبری انخلا اور فلسطینی عوام کو دہشت گرد کے لقب سے پکارنا یہ سب امن کے خلاف زہر ہیں۔ اگر دنیا واقعی جنگ بندی کو دیرپا دیکھنا چاہتی ہے تو اسے صرف میز پر نہیں میدان میں انصاف کرنا ہوگا۔یہ جنگ بندی ایک لمحہ سکون ہے جیسے کوئی زخمی ماں اپنے مردہ بچے کو آخری بار سینے سے لگاتی ہے۔ خاموش نڈھال مگر پھر بھی سینے میں امید کی کوئی ننھی سی چنگاری باقی ہے۔ کیا دنیا اس چنگاری کو بجھنے دے گی؟ یا اس پر ہاتھ رکھ کر اسے ہوا دے گی؟ یہی سوال ہے اور یہی امتحان۔
جنگ بندی کے بعد کیا پھر غزہ کی زمین پر زندگی لوٹ آئے گی؟ کیا وہ بچے جو مہینوں سے تعلیم سے محروم ہیں، پھر سے اسکول جا سکیں گے؟ کیا وہ مائیں جن کے بچے ان سے جدا ہو گئے کسی نئی صبح کی امید میں آنکھ کھول سکیں گی؟ یا پھر سب کچھ یوں ہی چلتا رہے گا؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ صرف توپوں کا خاموش ہونا امن نہیں ہوتا۔ امن وہ ہے جو دلوں میں اُترتا ہے جو خوابوں کو جنم دیتا ہے جو نسلوں کو ایک نئے مستقبل کا حوصلہ دیتا ہے، اگر غزہ کے نوجوان اب بھی ایک ویران ملبے میں جنم لیں گے اگر ان کی زندگی صرف جدوجہد اور موت کے بیچ جھولتی رہے گی تو پھر ہم نے امن نہیں صرف خاموشی پیدا کی ہے۔
یہ صرف غزہ کا امتحان نہیں یہ پوری دنیا کا امتحان ہے۔ وہ دنیا جو انسانی حقوق کی علمبردار بنتی ہے جس کے ایوانوں میں جمہوریت کے گیت گائے جاتے ہیں اگر وہ خون میں لت پت معصومیت کے لیے آواز بلند نہیں کر سکتی تو پھر وہ اپنے ہی دعوؤں سے منہ موڑ چکی ہے۔