البتہ دوحہ مذاکرات میں ایک دوسرے کی سرزمین دہشت گردی کے خلاف استعمال نہ کرنے اور جنگ بندی پر اتفاق رائے ہو گیا ہے،جو خوش آیند ہے۔ یہ اعتماد سازی ہی کا فقدان ہے کہ دونوں ممالک کے وفود تیسری جگہ مذاکرات کا حصہ بنے۔ پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت نے پاکستان کے تمام تر تحفظات پر جو یقین دہانی کرائی اور وعدے کیے گئے تھے۔
اس پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہی ہے ۔بنیادی نقطہ یہ ہی تھا کہ افغانستان کے اقتدار پر قابض ہونے سے پہلے طالبان کی قیادت نے دوحہ ہی میں امریکیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس میں یہ عہد بھی کیا تھا کہ طالبان کے اقتدار میں افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، نہ دہشت گردوں کی کسی بھی سطح پر سرپرستی یا سہولت کاری ہی کی جائے گی۔لیکن ایسا کچھ نہیں ہوسکا ، طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردوں کی کارروائیوں میں تیزی آئی اور یہ دہشت گرد افغانستان سے آتے رہے ہیں ۔
مستقل جنگ بندی تب ہی ہوسکتی ہے، جب افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونا بند ہوگا اور کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے خلاف افغان حکومت کا سخت ایکشن اور مطلوب افراد کی پاکستان کو حوالگی پر کوئی بڑی پیش رفت سامنے آئے گی۔
پاکستان علاقائی ممالک، چین ، امریکا یا قطر سے افغانستان کی جانب سے کیے گئے وعدوں پر ضمانت چاہتا ہے ۔کیونکہ پاکستان کو اس بات کا تجربہ ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت ماضی میں بار بار یقین دہانیوں کے باوجود اپنی روش سے باز نہیں آئی اور دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار نہیں رہی۔یہ سوال بھی اہمیت رکھتا تھا کہ اگر حالیہ دوحہ مذاکرات میں افغان حکومت دہشت گردی کے خاتمہ میں ضمانت دیتی ہے تو اس کی پاسداری کیسے ممکن ہوگی اور کون اس پر عمل کرائے گا؟ موجودہ حالات میں یہ امکان کم نظر آتا ہے ۔اس میں امریکا،چین ،سعودی عرب اور قطر کی ثالثی اور بڑے کلیدی کردار کے بغیر امن ممکن نہیں ۔ ایک مسئلہ بھارت اور افغانستان کی طالبان قیادت کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں ، دہلی اور کابل میں امیر متقی اور جے شنکر کے درمیان جو حالیہ مذاکرات ہوئے اور جومشترکہ اعلامیہ سامنے آیا ہے، وہ پاکستان مخالفت کی بنیاد پر نظر آتا ہے اور اس میں کشمیر کے مسئلہ پر افغان حکومت نے بھارت کے موقف کی حمایت کی ہے۔
مشترکہ اعلامیہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان کے اقتدار پر قابض طالبان کی قیادت کہاں کھڑی ہے اور ان کا اسٹرٹیجک پارٹنر کون ہے؟ موجودہ حالات میں اگر افغانستان پاکستان سے بہتر تعلقات چاہتا ہے تو یہ اس کی بڑی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس تاثر کی کھل کر نفی کرے کہ وہ پاکستان مخالف سرگرمیاں اور جارحانہ عزائم نہیں رکھتا ہے ۔
اس کی ایک شکل ہمیں حالیہ دوحہ مذاکرات کے نتائج ہی کی صورت میں دیکھنے کو ملے گی کہ پاکستان کے تناظر میں افغان پالیسی مستقبل میں کیسی ہوگی اور وہ کیسے خود کو پاکستان کی مخالفت میں بھارت کے حصار سے باہر نکال سکے گا۔افغانستان کو نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر علاقائی اور عالمی ممالک کو بھی اپنے طرز عمل سے یہ یقین دہانی کرانی ہوگی کہ وہ پاکستان مخالف سرگرمیوں سے خود کو دور رکھے گا۔
کیونکہ سب سے اہم نقطہ یہ ہے جس پر پاکستانی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ جب افغانستان کے وزیر خارجہ دہلی میں تھے تو عین اس وقت ہی پاکستان کے خلاف جنگ کیوں چھیڑی گئی اور اس کا مقصد کیا تھا۔یہ عالمی برادری کی بھی ناکامی ہے جو دوحہ مذاکرات میں دونوںممالک کے درمیان طے ہوا تھا اس کی خلاف ورزی پر کیونکر افغانستان کی عبوری حکومت کو جوابدہ نہیں بنایا گیا۔دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا ہونا مسائل کا حل نہیں ۔اگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات جنگ کی طرف بڑھیں گے تو خطہ دہشت گردی اور عدم استحکام سے دوچار ہوسکتا ہے۔ اس لیے گیند آج بھی افغانستان کی کورٹ میں ہے اور خود اس کی اپنی داخلی سلامتی کے لیے پاکستان سے بہتر تعلقات ناگزیر ہیں۔ افغان حکومت تضادات اور دوغلی سیاست سے باہر نکلے ۔