لاہور ہائیکورٹ میں کاہنہ کے علاقے سے مبینہ طور پر اغوا ہونے والی خاتون فوزیہ بی بی کی بازیابی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عالیہ نیلم نے درخواست گزار حمیداں بی بی کی درخواست پر سماعت کی جس میں بیٹی کی بازیابی کی استدعا کی گئی تھی۔
عدالتی حکم پر آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی صاحب بتائیں، یہ کون سے جن تھے جو بچی کو اغوا کر کے لے گئے؟ جس پر آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ یہ جن انسان نما تھے جو بچی کو لے کر گئے۔
آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ فوزیہ بی بی کا نادرا میں کوئی ریکارڈ رجسٹرڈ نہیں تھا اور وہ 2019 میں اپنے گھر سے مبینہ طور پر اغوا ہوئی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ صغراں بی بی نامی خاتون سے بچی کی فون پر بات چیت ہوئی تھی، جبکہ بچی کے استعمال کردہ تمام موبائل نمبرز حاصل کر لیے گئے ہیں۔
ڈاکٹر عثمان انور نے کہا کہ لاوارث لاشوں کی شناخت کے لیے بھی ٹیسٹ کیے گئے، تمام شیلٹر ہومز اور ایدھی سینٹرز میں چیکنگ کرائی گئی، لیکن بچی نہیں ملی۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ایسے گروہ موجود ہیں جو بچیوں کو پنجاب سے اغوا کر کے سندھ اور بلوچستان لے جاتے ہیں، جبکہ فیس بک اور دیگر سوشل ایپس کے ذریعے بچیوں کو ورغلا کر لے جایا جاتا ہے۔
آئی جی پنجاب نے عدالت سے مزید وقت دینے کی استدعا کی تاکہ تازہ رپورٹس کی بنیاد پر مزید تفتیش مکمل کی جا سکے۔
چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ مسنگ پرسنز اور بچے بچیاں کوئی بھی اغوا ہو اسکے ایس او پیز بنائے جائیں۔
عدالت نے آئی جی پنجاب کی استدعا منظور کرتے ہوئے فوزیہ بی بی کی بازیابی کے لیے 10 روز کی مہلت دے دی اور سماعت 6 نومبر تک ملتوی کردی۔