مَیںآپ کے نبیؐ کا ازل سے مرید ہوں
دنیا مری مرید ہو یا رب ذوالجلال
میری بساط کو نہیں، اپنی عطا کو دیکھ
مجھ کو نبیؐ کی دید ہو یا رب ذوالجلال
جان کاشمیری کی نعتیہ شاعری دنیائے سخن میں ایک خوشبو کی مانند ہیں، ان کے نو عدد نعتیہ مجموعوں کا ہر ایک مصرعہ عشقِ رسولؐ کی خوشبو میں بھیگا ہُوا محسوس ہوتا ہے۔ جان صاحب نے اپنے فن سے نعت کو الفاظ کی محدودیت سے نکال کر جذبے کی وسعتوں میں سمو دیا ہے۔ با وضو ہوکر سجدہ ریز جب بھی ہوتے ہیں تو ان کی ایک ہی آرزو ہوتی ہے۔
اپنے کرم سے مالکا ! اتنی رسائی دے
آنکھیں کروں جو بند مدینہ دکھائی دے
مدحتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ان کی ہر نعت، دل کی سچائی اور روح کی پاکیزگی کی تصویر ہے۔ ان کے نعتیہ کلام کو پڑھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اُن کا جسم پاکستان کے شہر گوجرانوالہ میں لیکن ان کا دل، جان اور ان کی روح سعودی عرب کے شہر مدینہ میں بس رہی ہے۔
’’ لوحِ غیر محفوظ‘‘ حروفِ تہجی کے اعتبار سے ان کا 29 واں شعری مجموعہ ہے۔
’’ لوحِ غیر محفوظ‘‘ کا مطلب حفاظت سے محروم یا غیر مصدقہ لوح ہے یہاں ’’ لوح‘‘ سے مراد کوئی دستاویز، صفحہ یا تختی ہو سکتی ہے جب کہ ’’غیر محفوظ‘‘ کے معنی ہیں جو محفوظ نہ ہو، حفاظت سے محروم ہو یا مشکوک ہو۔ یہ اصطلاح کبھی کبھی ’’ لوحِ محفوظ‘‘ (جوکہ لوحِ محفوظ کی ضد ہے) کے برعکس استعمال ہوتی ہے، جس کا مطلب مقام جہاں اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیریں محفوظ کی ہیں۔
بقول نسیمِ سحر کہ ’’ جان کاشمیری نے ’’ لوح غیر محفوظ‘‘ کے عنوان سے اپنی تخلیقی دوامیت کائناتِ ادب پر اس انداز میں ثبت کردی ہے کہ اسے ادب کی کائنات میں ایک ایسا دوام حاصل ہوجائے، جسے فنا کے انجام سے دوچار نہ ہونا پڑے۔‘‘ اس کے صفحہ نمبر 19 پر پہلی غزل جس کی ردیف ’’ہم لوگ‘‘ ہے۔ اس غزل کے تمام اشعار دل میں اُتر جانے اور اپنی تازہ کاری اور اسلوب کی دل پذیری کی بنا پر بہت مقبول ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دل فگار ہوکر بھی جانثار ہیں ہم لوگ
عشق کی حکومت کے اہل کار ہیں ہم لوگ
جان کاشمیری نے اپنی جدت طبع سے غزلوں میں نئے تجربے اور نرالی ردیفیں، منفردکافیے استعمال کرتے ہوئے نئی نئی باتیں کی ہیں۔ اس دوران وہ تجربات کی کڑی ریاضت سے جب گزرے تو ان کا علم و فن، تجربہ، مشاہدہ وسیع ہوتا گیا اور ان کے فن کا کینوس پھیلتا ہی چلا گیا۔ جان صاحب کی غزلوں میں حق و صداقت اور وجدان و معرفت کی باتیں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں اور وہ ان کو بیان کرتے ہوئے ذہنوں کو متحیر بھی کرتے نظر آتے ہیں،کیوں کہ انھیں ہرکام وقت پر کرنا اچھا لگتا ہے۔
وقت پرکام کرو وقت کی عظمت کے لیے
دن پہ جچتا ہی نہیں، نقد و نظر شام کے بعد
’’ شام کے بعد‘‘ اس ردیف کو بہت سے شعرا نے اپنے منفرد شعری اسلوب کے ساتھ بیان کیا ہے، مگر جان کاشمیری کا اسلوب ان سب شعرا سے جداگانہ، عاشقانہ اور شاعرانہ ہے۔ جی ہاں! ان کی ایک غزل جو مجھے ذاتی طور پر بہت پسند ہے، جسے کئی بار مشاعروں میں سنا اور اس کے بہت سے اشعار آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔ اس غزل کے اشعارکو پڑھ کر مجھ سمیت آپ بھی والہانہ رقص کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
دیکھ لے بعدِ سخاوت بھی سخاوت کا اثر
دل نہیں ہے پاس لیکن دلبرانہ رقص ہے
دل کے نوری ولولوں کو خوب ملتی ہے جِلا
وجد کیا، وجدان کیا سب صوفیانہ رقص ہے
’’لوحِ غیر محفوظ‘‘ میں شامل غزلوں میں ایسی بہت سے منفرد ردیفیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ان کو غزلوں کو پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جان صاحب غزل کہتے وقت الفاظ ان کے حضور خود بخود ہاتھ باندھے کھڑے ہوں، اس حوالے سے نسیمِ سحر اپنے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ ’’ جان کاشمیری اپنی اچھوتی ردیفوں کے سبب نہ صرف غزلوں کو جمالیاتی اسلوب سے مزین کرتے ہیں بلکہ ان نئی نکور ردیفوں کی وساطت سے ان کے اشعار میں نت نئے مفاہیم کے زاویے بھی روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان میں یک لفظی ردیفوں کے علاوہ طویل تر ردیفیں بھی شامل ہیں۔ کچھ ردیفیں تو ایسی بے ساختہ اور منفرد تراکیب پر مبنی ہیں کہ محض ردیف کی خواندگی ہی شعر کے ابلاغ کا راستہ ہموار ہونے لگتا ہے۔ ان کی کچھ ردیفوں نے خاص طور پر مجھے بہت متاثرکیا ہے کہ ان میں اظہار کی گنجائش کم ہونے کے باوجود جان کاشمیری نے اپنی تخلیقی دسترس سے نیا خیال اور نیا موضوع تلاش کر کے ردیف کے حُسن و ندرت کا حق ادا کر دیا ہے۔ ‘‘
وہ اپنا فن دکھاتے ہیں جدت کی آڑ میں
نغمہ بھی طرزِ کافی میں گانے پہ تُل گئے
’لوحِ غیر محفوظ‘‘ کا انتساب انھوں نے اظہر فرید کے نام کیا ہے جو ایک خوش فکر، تہذیب آشنا اور تخلیقیت سے بھرپور شاعر اور چہرے سے محبت شناس آدمی بھی ہے۔ اس کتاب کو دلکش سرورق کے ساتھ جان صاحب کے فرزند مکنون احمد جانؔ نے اپنے اشاعتی ادارے ’’ قرطاس‘‘ کے زیر اہتمام شایع کیا ہے۔ اس کتاب کی مشینی خطاطی کا اعزاز مجھ خاکسار کو حاصل ہُوا۔ جانؔ صاحب کے اس شعری مجموعے میں گیت بھی شامل ہیں، ان گیتوں کا مزاج عاشقانہ اور سدا بہار معلوم ہوتا ہے۔
جانؔ کاشمیری ایک کثیر المطالعہ شخص ہیں، جن کی علمی وادبی، فکری و فنی اعتبار سے خدمات ہمیشہ جہانِ ادب کی فضا کو خوشگوار اور خوشبودار رکھے گی اور یقینا موصوف کے اس شاندار کام کو نہ صرف یاد رکھا جائے گا بلکہ اس سے نئے آنے والے محققین روشنی بھی پاتے رہیں گے۔ کیوں کہ’’ ہر کوئی تو جانؔ کاشمیری نہیں ہوتا…‘‘