دنیا بھر میں ہر سال تقریباً بیس لاکھ عورتیں اس مرض میں مبتلا ہوتی ہیں۔ ان میں سے لاکھوں اپنی زندگی کی جنگ ہار جاتی ہیں۔ پاکستان میں یہ بیماری ایک بھیانک حقیقت کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اندازہ ہے کہ ہر سال ایک لاکھ کے قریب عورتیں بریسٹ کینسر میں مبتلا ہوتی ہیں اور ان میں سے چالیس ہزار کے قریب جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں یہ وہ مائیں ہیں جو اپنی بیٹیوں کی شادیاں دیکھنے سے پہلے چلی گئیں، وہ بہنیں ہیں جو بھائیوں کی مسکراہٹوں کے پیچھے اداسی چھوڑ گئیں ، وہ بیٹیاں ہیں جو خوابوں کے آغاز سے پہلے ہی رخصت ہوگئیں۔
میں اکثر سوچتی ہوں کہ اگر یہ مرض اتنی شدت سے پھیل رہا ہے تو کیا ہم واقعی اس کے خلاف کوئی سنجیدہ قدم اٹھا رہے ہیں؟ جواب اکثر دل کو دُکھا دیتا ہے۔ ہم نے عورت کے جسم کو اب تک ایک ایسا موضوع بنا رکھا ہے، جس پر بات کرنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اسے سکھایا جاتا ہے کہ شرم ہی اس کا زیور ہے مگر یہ زیور اکثر اس کی زندگی کی قیمت بن جاتا ہے۔ جب وہ اپنے جسم میں کوئی تبدیلی محسوس کرتی ہے، کوئی گلٹی یا درد محسوس کرتی ہے تو وہ چپ رہتی ہے۔ شرم خوف اور سماجی طعنوں سے بچنے کے لیے وہ کسی کو نہیں بتاتی۔ یہاں تک کہ جب تک وہ اسپتال پہنچتی ہے، بیماری اس کے جسم کے ہر حصے میں پھیل چکی ہوتی ہے۔
یہ شرم یہ خاموشی یہ خوف یہی اصل قاتل ہیں۔
یہ مرض قابلِ علاج ہے مگر لاعلمی اسے جان لیوا بنا دیتی ہے، اگر بروقت تشخیص ہو جائے تو نوے فیصد عورتیں اس سے بچ سکتی ہیں، مگر ہمارے ہاں بروقت تشخیص ایک خواب بن چکی ہے۔ اسپتال کم سہولتیں محدود اور سماج کی سوچ جامد ہے۔ اکتوبر میں چند مہمات چلتی ہیں،گلابی ربن باندھے لوگ تصویریں کھنچواتے ہیں مگر جب مہینہ ختم ہوتا ہے تو یہ احساس بھی ہوا ہو جاتا ہے۔ یہ جنگ محض اکتوبر کی نہیں ہر دن کی ہے، ہر عورت کے جسم اور ہر خاندان کی ذمے داری ہے۔ ہمیں اپنی بچیوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ وہ اپنی صحت پر توجہ دیں اپنے جسم کو پہچانیں اور کسی خوف یا جھجک کے بغیر خود معائنہ کریں۔
ہمیں ماؤں کو یہ بتانا ہوگا کہ اپنی زندگی کو محفوظ رکھنا، اپنی اولاد کے لیے سب سے بڑی محبت ہے۔ ہمیں مردوں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ عورت کی بیماری شرمندگی نہیں بلکہ انسانیت کی آزمائش ہے۔ ایک شوہر جو بیوی کو اسپتال لے جائے، ایک بھائی جو بہن کا سہارا بنے، ایک بیٹا جو ماں کے درد کو سمجھے، وہ اس معاشرے کے سب سے بڑے مسیحا ہیں۔
بریسٹ کینسر کے خلاف جنگ صرف ڈاکٹروں کی نہیں۔ یہ ایک سماجی جنگ ہے اور ہم سب اس کے سپاہی ہیں۔ امامِ مسجد جب اپنے خطبے میں صحت کو اللہ کی نعمت کہے استاد جب طالبات کو آگاہی دے میڈیا جب عورت کی بیماری کو تماشہ نہیں بلکہ ایک مسئلہ بنائے تب جا کر ہم واقعی اس مرض سے لڑ سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ہر ضلع میں مفت اسکریننگ سینٹر قائم کرے اور دیہات کی عورتوں تک وہ سہولت پہنچائے جو شہروں میں میسر ہے۔
میں نے زندگی میں کئی عورتوں کو دیکھا ہے جنھوں نے اس مرض کا سامنا کیا۔ کچھ جیت گئیں، کچھ زندگی کی بازی ہار گئیں لیکن جو جیتیں ان کے چہرے پر ایک عجیب روشنی تھی، جیسے انھوں نے موت سے بات کر کے اسے واپس بھیج دیا ہو۔انھوں نے خود کو بچانے کا فیصلہ کیا اور یہی فیصلہ سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ ان کی ہمت ان کا یقین ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی ہمیشہ جیت سکتی ہے اگر ہم خاموش نہ رہیں۔
اکتوبر کی گلابی چادر ہمیں صرف ایک دن یا ایک مہینے کی یاد نہیں دلاتی، یہ ہمیں ہماری ذمے داری کا احساس دلاتی ہے۔ یہ ہمیں کہتی ہے کہ موت ہمیشہ مقدر نہیں ہوتی، کبھی کبھار وہ صرف ہماری غفلت کا دوسرا نام ہے، اگر ہم نے عورت کو سنا اسے سمجھا اس کی بیماری کو شرمندگی کے بجائے ہمدردی سے دیکھا تو اس سے اس عورت کو ڈھارس ملے گی۔ میں چاہتی ہوں کہ اس ملک کی ہر عورت چاہے وہ گاؤں کی ہو یا شہر کی امیر ہو یا غریب یہ جان لے کہ وہ اپنی زندگی کی محافظ خود ہے۔ وہ اپنے جسم کی زبان سننا سیکھے، اپنی صحت پہ توجہ دے کیونکہ زندگی سب سے قیمتی تحفہ ہے اور اسے محفوظ رکھنا عورت کا حق بھی ہے اور ہمارا فرض بھی۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ آج کے دور میں عورتوں میں شعور بیدار ہو رہا ہے لیکن یہ عمل ابھی ادھورا ہے۔ شہروں میں رہنے والی عورتیں کسی حد تک آگاہی حاصل کر لیتی ہیں مگر دیہات کی عورت آج بھی اندھیروں میں ہے۔ وہاں نہ صحت کی سہولتیں موجود ہیں نہ معلومات کی رسائی۔ وہ اپنے جسم کو محض تقدیر کے حوالے کر دیتی ہیں، اگر کوئی عورت بیماری کا ذکر کرے بھی تو اکثر جواب ملتا ہے کہ اللہ پر بھروسہ رکھو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یقیناً ایمان انسان کو مضبوط بناتا ہے مگر ایمان کے ساتھ تدبیر بھی ضروری ہے۔ بیماری کو چھپانا تقدیر نہیں غفلت ہے۔ جب ہم اپنے جسم کی حفاظت کرتے ہیں تو دراصل ہم زندگی کا احترام کرتے ہیں۔
بریسٹ کینسر کے بارے میں آگاہی صرف عورتوں تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ اسکولوں اور کالجوں میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو یہ سکھانا چاہیے کہ صحت کسی جنس کی نہیں بلکہ انسان کی ضرورت ہے۔ میڈیا کو بھی اپنی ذمے داری سمجھنی چاہیے کہ وہ دکھاوے کے بجائے مسلسل آگاہی مہم چلائے۔ اشتہارات میں گلابی ربن کے ساتھ ساتھ وہ حقیقی کہانیاں دکھائی جائیں جن سے عورتوں کو حوصلہ ملے۔ حکومت اگر دیہات میں موبائل میڈیکل یونٹس بھیج دے تو ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ عورت صرف گھرکی زینت نہیں بلکہ پورے خاندان کی بنیاد ہے، اگر وہ بیمار ہوگی تو پورا گھرکمزور ہو جائے گا۔ اس لیے عورت کی صحت پر سرمایہ کاری دراصل قوم کے مستقبل پہ سرمایہ کاری ہے۔ ہر بیٹی، ہر ماں اور ہر بہن کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ وہ اکیلی نہیں۔ اگر ہم سب ایک دوسرے کا ساتھ دیں تو یہ بیماری بھی ہار سکتی ہے۔ زندگی کو محفوظ بنانا صرف ایک انتخاب نہیں بلکہ یہ ایک عہد ہے، امید کا ہمت کا اور محبت کا۔