ہم ’’اغوا‘‘ ہونے کے لیے تیار ہیں

ایک لڑکے اورلڑکی میں محبت ہوگئی ، لڑکی والے کچھ بڑے لوگ تھے، اس لیے رشتے سے انکار کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ لڑکی بھاگ کر لڑکے کے گھر آگئی ، لڑکی کے خاندان نے اعلان کردیا کہ وہ ’’بدلہ ‘‘ لے کر رہیں گے۔ اس لڑکے کی ایک غیر شادی شدہ بہن تھی۔ بدصورت ہونے کی وجہ سے اس کوکسی نے اسے قبول نہیں کیا تھا، اس نے بدلے کا سنا تو جان بوجھ کر کھلے عام پھرنے لگی، اکثر دشمنوں کے گلی کوچوں میں پھرنے لگی کہ شاید وہ لوگ اپنا بدلہ لینے کے لیے ’’اسے‘‘ اٹھا لیں لیکن بیچاری کی امید پوری نہیں ہوئی۔

ہمارا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ رہا ہے، ہم سنتے تھے کہ اکثر صحافی کسی نہ کسی کے ہاتھوں خودکو فروخت کردیتے ہیں یاکو ئی ان کو اپنے ’’پے رول‘‘ پر رکھ لیتا ہے اور وہ لفافے والے صحافی بن جاتے ہیں،پرمٹ ،پلاٹ یااوربہت کچھ حاصل کرلیتے ہیں، چنانچہ ہم نے ادھر ادھر پھرنا شروع کردیا، ٹاپ کلاس کے جھوٹ بولے اور لکھے لیکن کسی نے بھی گھاس نہیں ڈالی ۔

لوگ بازار میں آکے بک بھی گئے

میری قیمت لگی کی لگی رہ گئی

 برسراقتدار لوگوں کے سامنے خود کو آگے پیچھے کیا، متوقع اقتدار میں آنے والوں کی مدح خوانی کی جن جن ممالک سے کچھ توقع ’’داد‘‘ پانے کی تھی، ان کے سامنے بھی ادھرادھر ہوئے، جن لوگوں پر شک تھا کہ ’’اہل لفافہ‘‘ ہیں ، ان کے بھی آگے پیچھے ہوئے لیکن کسی نے بھی ہاتھ نہیں بڑھایا ، ایک زمانے میں کچھ ایسا تاثردیا جسے مسلم لیگی حکمران ہمارے فین ہوں لیکن یہ تو قع بھی نقش بر آب ثابت ہوئی ، ہماری طرف سے ’’ہاں‘‘ تھی لیکن اس طرف سے۔

آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان

 ’’بھولے‘‘ تو یوں کہ جیسے کبھی آشنا نہ تھے

اے این پی سے ہمارا تین پشتوں کاتعلق ہے لیکن اس کی تو پالیسی غلط ہے کہ اپنے تو بہرحال اپنے ہیں، پرایوں کو اپنا بناؤ چنانچہ وہ پرایوں کو اپناتے رہے اوراپنوں کو پرایا کرتے رہے، جن میں ہم بھی شامل تھے ،کسی نے بھی نہ پوچھا کہ بھیا کیسی۔

لفاف اورلفافہ تو اپنے نصیبوں میں نہیں تھا ، نہیں پاسکے لیکن اس دوڑ میں ہم خود گم ہوگئے ، نہ تین میں شامل ہوسکے نہ تیرہ میں ، صحافی یہ کہہ کر ہمیں ’’دورپرے‘‘کہتے ہیں کہ ہم تو صحافی نہیں، ادیب ہیں اورادیب ہمیں صحافی کہہ کر دھتکارتے ہیں ، شاعر ہمیں ڈرامہ نگار کہہ کر دھتکارتے ہیں اورتو اور پشتو والے ہمیں اردو کی طرف دھکیلتے ہیں اوراردو والے ہمیں پشتون یعنی پشتو بولنے والا سمجھتے ہیں، یہاں تک کہ مزاح نگار ہمیں سنجیدہ اورسنجیدہ ہمیں مزاح نگار کہہ کر منہ پھیرتے ہیں اورہم وہ لڑکی بن کر رہ گئے جو اغوا ہونے کی حسرت میں بوڑھی ہوگی تھی۔

ہم تو بالکل مایوس ہوگئے تھے اورصبر شکر کرکے بیٹھ گئے کہ اللہ صابرین وشاکرین کو پسند کرتے ہیں کہ اچانک اس خراب آباد میں ’’بانی‘‘ کی ولادت باسعادت ہوئی ، شاید اس ملک کے بداعمال لوگوں کو سزا دینے کے لیے۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ راتوں رات لوگ کوڑے دان سے اٹھ کر محل نشین ہوگئے۔ یہ حالات دیکھے تو ہماری بنجر کھیتی ایک مرتبہ پھر سرسبز ہونے لگی ، سوچا، اگر کسی طرح معاون یا مشیر کارتبہ پکڑمیں آجائے تو شفق ، دھنک، مہتاب ، ہوائیں بجلی تارے قمقمے پھول ، کھل اٹھیں گے۔ لیکن وہ جو کسی نے کہا ہے کہ بدنصیب یہاں بھی بدنصیب اورسات سمندر پاربھی بدنصیب ۔ ساری دنیا پانی پانی ہوجائے بلکہ’’بانی بانی‘‘ ہوجائے جن کی قسمت میں ’’چاٹنا‘‘ لکھا ہوتا ہے، وہ ’’چاٹتے‘‘ رہ جاتے ہیں۔یاجن کے گلے میں سوراخ ہو، اس کانصیبہ صرف بارش کے قطرے ہوا کرتے ہیں۔ہماری تو دعا بھی قبول نہیں ہوتی حالانکہ خیبر پختونخوا میں ’’بانی‘‘ کے طویل دورمیںلوگ کیا سے کیا ہوگئے۔ ہم نے کوشش بہت کی ،ہم سے بھی ماڑے مٹے لوگ نہ جانے کیا کیا بن گئے اور پھر اپنے لیے کیاکیا بناگئے۔

اب یہ جو نئی صوبائی تبدیلی آگئی ہے، ہماری توقع بھی پھر جاگ اٹھی ہے ، سوکھے دھانوں میں پھر پانی پڑ گیا ہے، اس لیے اپنی لیاقت اورقابلیت ایک مرتبہ پھر مشتہرکرتے ہیں ۔اس منصب کے لیے جو خوبی درکارہوتی ہے وہ ہمارے اندر بدرجہ اتم موجود ہے یعنی جھوٹ ہم ایسا بولتے ہیں، ایسا بول سکتے ہیں کہ اورتو اوربولنے کے بعد ہم خود بھی اپنے جھوٹ کو ’’سچ‘‘ سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ ایک وکیل سے اس کے موکل نے بری ہونے کے بعد کہا، وکیل صاحب! آپ نے عدالت میں جو دلائل میرے حق میں دیے، انھیں سن کر خود میں نے بھی محسوس کیا جیسے چوری میں نے نہیں کسی اورنے کی تھی۔ مطلب ہمارے اندرایک مکمل مشیر یامعاون موجود ہے گرقبول افتد رہے عزو مشرف

 مجھ کو معلوم ہے میں جنس گراں ہوں لیکن

 لیکن اب ایسا خریدار کہاں سے لاؤں

Similar Posts