ان دنوں لاہور کی مختلف سڑکوں پر واٹر کینن گاڑیاں نظر آتی ہیں جو فضا میں موجود گردوغبار اور معلق ذرات کو کم کرنے کے لیے پانی کا باریک چھڑکاؤ کرتی ہیں۔ ابتدائی مرحلے میں 15 گاڑیاں آزمائشی طور پر مختلف علاقوں میں استعمال کی جا رہی ہیں۔ ایک واٹر کینن گاڑی میں 12 ہزار لیٹر پانی کی گنجائش ہے اور یہ ایک گھنٹے کے دوران اپنا سرکل مکمل کرتی ہے۔
ادارہ تحفظِ ماحولیات پنجاب (ای پی اے) کے ترجمان ساجد بشیر کے مطابق، لاہور میں نصب 16 ائیر کوالٹی مانیٹرز کے ذریعے ان علاقوں کی پیشگی نشاندہی کی جاتی ہے جہاں آلودگی کی سطح بڑھنے کا امکان ہو، اور انہی علاقوں میں واٹر کیننز بھیجے جاتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کاہنہ کے علاقے میں فوگ کیننز کے استعمال کے بعد فضا میں موجود پی ایم 10 ذرات کی شرح میں تقریباً 70 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی۔
ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ ای پی اے نے واٹر کینن کے اثرات جانچنے کے لیے ایک تکنیکی کمیٹی تشکیل دی ہے جو مختلف علاقوں میں ایئر کوالٹی ڈیٹا کی بنیاد پر ان کے اثرات کا جائزہ لے رہی ہے۔
تاہم ماہرینِ ماحولیات اس مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اینٹی اسموگ گنز محض اسموگ تھیٹر ہیں، یعنی ایک ایسا دکھاوا جو وقتی طور پر فضا صاف کرنے کا تاثر دیتا ہے۔
ائیر کوالٹی ایکسپرٹ مریم شاہ کے مطابق، یہ واٹر کیننز ایمرجنسی اقدامات کے طور پر کچھ علاقوں میں وقتی بہتری لا سکتے ہیں، لیکن سائنسی اعتبار سے ان کا اثر نہایت محدود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چین میں بھی کچھ عرصہ یہی ٹیکنالوجی آزمائی گئی تھی، تاہم بعد میں اسے ترک کر دیا گیا کیونکہ اس سے اسموگ کی شدت میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی۔
تاہم ای پی اے نے اس تاثر کو مسترد کیا ہے کہ یہ منصوبہ غیر سائنسی ہے۔ ادارے کے ترجمان کے مطابق، چین میں فوگ کیننز سے متعلق کی گئی تحقیق محدود پیمانے پر تھی اور وہاں کے موسمی حالات لاہور سے مختلف تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ لاہور میں استعمال ہونے والی اینٹی اسموگ گنز مقامی موسمیاتی حالات اور ہوا کی رفتار کو مدنظر رکھ کر ڈیزائن کی گئی ہیں۔
سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ریسرچ، پنجاب یونیورسٹی لاہور کے آبی وسائل کے ماہر ڈاکٹر محمد یٰسین نے بھی اس پالیسی پر تشویش ظاہر کی ہے۔ ان کے مطابق واٹر کینن کا استعمال ایک عارضی حل ہے کیونکہ اس طریقے سے بہت زیادہ پانی استعمال ہوگا۔ لاہور پہلے ہی پانی کی شدید قلت کا شکار ہے، ایسے میں ان واٹر کیننز کا استعمال صورتحال کو مزید خراب کر سکتا ہے۔
ماحولیاتی وکیل التمش سعید کے مطابق، اگر ایک واٹر کینن روزانہ 12 گھنٹے چلایا جائے تو ایک لاکھ 44 ہزار لیٹر پانی استعمال ہوگا، اور 15 کیننز کے لیے یہ مقدار 22 لاکھ لیٹر سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔ ان کے بقول، یہ گنز صرف بڑے ذرات کو وقتی طور پر نیچے بٹھاتی ہیں، جبکہ باریک اور خطرناک ذرات یعنی پی ایم 2.5 پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہی ذرات انسانی صحت کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہیں کیونکہ یہ سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہو کر پھیپھڑوں اور دل کی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔
واسا کے اعداد و شمار کے مطابق، لاہور میں زیرِ زمین پانی کی سطح ہر سال دو سے تین فٹ تک نیچے جا رہی ہے، اور 1960 کی دہائی سے اب تک یہ سطح تقریباً 18 میٹر سے زیادہ گر چکی ہے۔ 1980 میں پانی 15 میٹر گہرائی پر دستیاب تھا، جو اب بعض علاقوں میں 70 میٹر سے بھی نیچے پہنچ چکا ہے۔ شہر کی روزانہ پانی کی ضرورت 480 ملین گیلن سے زائد ہے، جو اب تقریباً مکمل طور پر زیرِ زمین ذخائر سے پوری کی جاتی ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی خان کا کہنا ہے کہ لاہور کو اب سب سے بڑا خطرہ اسموگ سے زیادہ پانی کی کمی سے ہے۔ ان کے مطابق، گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں، ناقص معیار کا ایندھن، اور صنعتوں کے غیر فلٹر شدہ اخراج فضائی آلودگی کے بنیادی اسباب ہیں جن پر قابو پائے بغیر کوئی بھی ’’انسدادِ اسموگ‘‘ مہم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اسموگ کیننز جیسے اقدامات شہریوں کو عارضی ریلیف دیتے ہیں، لیکن فضائی معیار میں مستقل بہتری کے لیے بنیادی اصلاحات ناگزیر ہیں۔
ماہرین کا اتفاق ہے کہ لاہور میں اسموگ کے مسئلے کا حل پانی چھڑکنے یا اسموگ کیننز چلانے سے نہیں بلکہ گاڑیوں کے اخراج میں کمی، صنعتوں میں جدید فلٹرز کی تنصیب، تعمیراتی مٹی کے بہتر انتظام اور زرعی باقیات جلانے کی روک تھام میں ہے۔ مریم شاہ کے بقول، فوگ کیننز وقتی تسکین دیتی ہیں، مگر اگر حکومت نے فضائی آلودگی کے بنیادی اسباب پر قابو نہ پایا تو لاہور کو دھند نہیں بلکہ پانی کی کمی مارے گی۔