مینا کماری

ماں باپ نے نام رکھا مہ جبیں بانو، چھوٹی عمر میں فلموں میں کام کیا تو بے بی مینا کہلائیں اور جب پردہ سیمیں پہ اپنے جلوے بکھیرے تو مینا کماری کہلائیں، وہ یکم اگست 1932 کو علی بخش اور اقبال بیگم کے گھر پیدا ہوئیں۔ اقبال بیگم علی بخش کی دوسری بیوی تھیں، پہلی بیوی سے ان کی دو بیٹیاں اور تھیں مدھو اور خورشید، جو مینا کماری کی سوتیلی بہنیں تھیں۔ خورشید اپنے زمانے میں بہت بڑی ہیروئن اور گلوکارہ تھیں، انھوں نے کندن لال سہگل کے ساتھ بہت سی فلموں میں کام کیا۔ ان کی شکل و صورت بھی مینا کماری سے بہت ملتی تھی۔

مینا کماری نے یوں تو بے شمار فلموں میں کام کیا، لیکن ان کی تین فلمیں ایسی ہیں جو دیکھنے والوں کو مدتوں یاد رہیں گی۔ ان میں ’’ بیجو باورا‘‘ بھارت بھوشن کے ساتھ۔ ’’ صاحب بی بی اور غلام‘‘ گرودت کے ساتھ اور بلاک بسٹر فلم ’’پاکیزہ‘‘ جو راج کمار کے ساتھ کی تھی۔ آج بھی دیکھنے والوں کو مسحورکر دیتی ہے۔ اس کی موسیقی اس کمال کی ہے کہ موسیقی کے رسیا اس کی چاشنی میں ڈوب جاتے ہیں۔ اس کا ایک ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا تھا ’’ آپ کے پاؤں بہت خوبصورت ہیں، انھیں زمین پر مت رکھیے گا‘‘ تمام گانے ہٹ ہوئے اور آج تک لوگوں کے دلوں کو گرما رہے ہیں، خاص کر یہ گیت:

(1)۔یوں ہی کوئی مل گیا تھا سرِ راہ چلتے چلتے

(2)۔ انھی لوگوں نے لے لیا دوپٹہ مرا

(3)۔ تھارے رہیو اور بانکے یار

یہ فلم 1972 میں بنی تھی اور اگلے پچھلے تمام ریکارڈ مقبولیت کے ٹوٹ گئے تھے۔ پاکیزہ مینا کماری کی موت کے بعد ریلیز ہوئی تھی۔ اسی طرح ’’ صاحب بی بی اور غلام‘‘ میں مینو ممتاز کے رقص پر مبنی یہ گیت بھی بہت مقبول ہوا۔

ساقیا آج مجھے نیند نہیں آئے گی

سنا ہے تیری محفل میں رت جگا ہے

اسی طرح ’’ بیجو باورا‘‘ کے گیت۔

او دنیا کے رکھوالے، سن درد بھرے میرے نالے

جھولے میں پون کے آئی بہار پیار جھلکے

تُو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا

رہے گا ملن یہ ہمارا تمہارا

مینا کماری کی ماں انھیں بچپن ہی میں فلموں میں لے آئی۔ دراصل وہ ایک اسٹیج ڈانسر تھی، شادی کے بعد بھی اسٹیج پہ کام کرتی رہی۔ والد علی بخش بھی ایک اداکار بننا چاہتے تھے لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا، مینا کماری ماں اور باپ دونوں کی خواہشوں کے پیش نظر اداکارہ بن گئی۔ سات سال کی عمر میں ’’ فرزند وطن‘‘ نامی فلم میں کام کیا اور اس کی اداکاری دیکھ کر فلم ساز اسے فلموں میں لینے کو بے تاب تھے۔

پوجا، ایک ہی بھول، نئی روشنی،کسوٹی، بانہیں، غریب، پرتگیا، لال حویلی، دنیا ایک سرائے، بچوں کا کھیل، پیا گھر آ جا اور بچھڑے بالم۔ بہ حیثیت چائلڈ اسٹارکے طور پہ ان فلموں میں کام کیا اور خوب داد سمیٹی۔ 1950 میں مینا کماری کی ایک فلم ’’ شری گنیش‘‘ ریلیز ہوئی، جس میں اس نے ہیروئن کا رول کیا۔ اس کے بعد تو جیسے فلموں کی جھڑی لگ گئی۔ 1950 میں مینا کماری کی تین اور فلمیں ریلیز ہوئیں، انمول رتن، ہمارا گھر اور مفرور۔

1951 میں مینا کی چار فلمیں ریلیز ہوئیں۔ صنم ، مدھوش، لکشمی نارائن اور الزام۔ اب وہ بڑے بڑے ہدایات کاروں کی نظروں میں آ چکی تھیں۔ وجے بھٹ ’’بیجو باورا‘‘ بنانا چاہتے تھے لیکن انھیں اب تک ہیروئن نہیں مل پا رہی تھی، مینا کماری وجے بھٹ کی ہی دریافت تھی، قرعہ فال اس کے حق میں گرا اور اس فلم نے مینا کماری کی تقدیر بدل دی۔ ہر طرف مینا کماری کے چرچے تھے، فلم ’’بیجو باورا‘‘ نے کامیابی کی معراج کو چھو لیا۔ اشوک کمار نے ’’ پری نیتا ‘‘ شروع کی تو اس نے بھی مینا کو ہیروئن کا درجہ دیا۔ وہ فلم ’’ تماشا ‘‘ میں مینا کے جوہر دیکھ چکے تھے۔ ’’پری نیتا‘‘ مینا کماری کے فلمی کیریئر میں سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔

اس کے بعد فلموں کی لائن لگ گئی۔ اسی سال مینا کی پانچ فلمیں ریلیز ہوئیں۔ دو بیگھا زمین، نولکھا ہار، فٹ پاتھ میں وہ دلیپ کمار کے ساتھ جلوہ گر ہوئیں۔ ’’دائرہ‘‘ یہ فلم کمال امروہوی کی تھی جس کی شوٹنگ کے دوران دونوں ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ مینا رات دن کمال امروہوی کے سپنے دیکھا کرتی تھیں۔ 15 فروری 1952 میں دونوں کی شادی ہوگئی۔ اس وقت مینا کی عمر انیس سال اور کمال امروہوی کی عمر چونتیس سال تھی۔ سچ کہا ہے کسی نے کہ محبت اندھی ہوتی ہے۔ اس وقت مینا نے نہ یہ سوچا کہ کمال شادی شدہ اور بچوں کا باپ ہے اور اس کی عمر زیادہ ہے۔ مینا کماری اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ بڑے بڑے بینر اسے سائن کرنے کے لیے بے تاب تھے۔

یہ وہ دور تھا جب ہر ٹاپ کا ہیرو مینا کماری کے ساتھ کام کرنا چاہتا تھا، 1954 میں اس کی تین فلمیں ریلیز ہوئیں الزام، چاندنی چوک اور بادبان۔ مینا اسی طرح کامیابی کی منزلیں تیزی سے طے کر رہی تھی، لیکن اب وہ کمال امروہوی مینا کماری کے مقابلے میں احساس کمتری کا شکار ہونے لگے۔ برصغیرکا مرد ہمیشہ اپنی بیوی سے آگے رہنا چاہتا ہے۔ بیوی خواہ اداکارہ ہو، افسانہ نگار ہو، سیاست دان ہو، غرض یہ کہ کوئی بھی فیلڈ ہو، مرد اسے اپنے سے آگے نہیں دیکھ سکتا۔ بہت کم مرد ایسے ہوتے ہیں جو بیوی کی کامیابی کو خوشی سے ہضم کر سکتے ہوں۔ کمال امروہوی کا رویہ دن بہ دن خراب ہوتا جا رہا تھا۔

مینا کماری نے کمال کو ٹوٹ کر چاہا، بدلے میں اسے ذلت کے سوا کچھ نہ ملا۔ کمال امروہوی اس کے کام میں بہت زیادہ دخل دینے لگے۔ وہ جہاں بھی کسی تقریب میں جاتے انھیں ’’ مینا کماری کے شوہر‘‘ کی حیثیت سے انٹروڈیوس کروایا جاتا۔ یہ رویہ کمال امروہوی جیسے انا پرست انسان کے لیے قابل قبول نہ تھا۔ مینا کو ازدواجی سکھ بہت کم ملا۔ گرودت کی شہرہ آفاق فلم مینا کماری کی زندگی کا عکس تھی۔ ’’ صاحب بی بی اور غلام ‘‘ کی ٹھکرائن کا رول اس نے اس خوبی سے نبھایا کہ ناظرین عش عش کر اٹھے۔ ’’عدل جہانگیری‘‘ میں اس نے ملکہ نور جہاں کا کردار بہت خوبی سے نبھایا۔

اس کے علاوہ بندش، آزاد، ہلاکو، شطرنج، مس میری، شاردا، سویرا، بندھن، شرارت، سٹہ باز، مدھو، جاگیر، چاند، چراغ کہاں روشنی کہاں، چار دل چار راہیں، بے نظیر، زندگی اور خواب، دل ایک مندر، اکیلی مت جائیو، سانجھ اور سویرا، پورنیما، غزل، بھیگی رات، پھول اور پتھر، چتر لیکھا، نور جہاں، بہو بیگم، سات پھیرے، منجھلی دیدی، بہاروں کی منزل، جواب، میرے اپنے، دشمن، چندن کا پالنا، بھیگی رات، آرتی، میں چپ رہوں گی اور بہت سی دوسری فلمیں مینا کماری کی نہایت کامیاب فلمیں ہیں جو آج تک مقبول ہیں۔

کمال امروہوی سے اختلاف اور ذاتی رنجشوں نے اس کی صحت پر بہت برا اثر ڈالا، مسلسل بے خوابی کا شکار ہو کر اس نے نیند کی گولیاں لینی شروع کر دیں۔ ایک شام دونوں میں کچھ تکرار ہوئی، کمال نے ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا اور تین بار طلاق کہہ کر اسے اپنی زندگی سے الگ کر دیا۔

1960 میں ان دونوں کے بیچ طلاق ہوگئی۔ دھرمیندر ایک نووارد تھا۔ اسے مینا کماری نے متعارف کروایا تھا، وہ اس کے لیے سفارش بھی کرتی تھی۔ دھرمیندر نے جوں ہی فلمیں حاصل کیں مینا کماری سے اپنا راستہ بدل لیا، پھرگلزار نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا، لیکن یہ ساتھ بھی عارضی ثابت ہوا۔ آخر کار بے خوابی کا شکار مینا کو ڈاکٹر نے ایک پیک برانڈی تجویزکی، لیکن بعد میں مینا ایک پیک سے زیادہ پینے لگی۔ کمال امروہوی نے اسے ماں بھی نہ بننے دیا، وہ کمال کے بیٹے تاجدار سے بہت محبت کرتی تھی لیکن کمال نے تاجدار کو بھی اس کی گود میں نہ رہنے دیا۔ آخر کار ایک دن 31 مارچ 1972 میں اس کا انتقال ہو گیا، وہ آسودہ خاک ہوگئی۔

Similar Posts