ہمارے ہاں انصاف صرف دیر سے نہیں ملتا بلکہ جب ایک شخص پوری زندگی گزار دیتا ہے تب کہیں کسی مقدمے کا فیصلہ سامنے آتا ہے۔ یہی وہ بنیادی خرابی ہے کہ جس نے ہمارے معاشرے کے امن و امان کو شدید متاثر کیا ہے۔ ہمارے ملک کے تمام ادارے دن بہ دن تباہی کی طرف جا رہے ہیں، ہر آنے والی حکومت اداروں کو نجی تحویل میں دینے کی پالیسی اپنا رہی ہے، اگر ہماری عدالتوں سے بروقت انصاف ملتا تو یہ صورتحال قطعی نہ ہوتی۔
انصاف میں تاخیرکے باعث ہی جرم کرنے والوں کی ہمت بڑھتی رہتی ہے۔ وائٹ کالرکرائم نے تو اسی سبب اس ملک کے اداروں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ کسی سرکاری ادارے میں رشوت طلب کرنا اور نہ دینے پرکام ہی نہ کرنا ایک کلچر بن چکا ہے۔ اس کلچرکی بنیادی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ رشوت لینے والے کو یقین ہوتا ہے کہ کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، اگرکوئی عدالت چلا بھی گیا تو جب تک فیصلہ آئے گا، وہ کب کا ریٹائر ہوچکا ہوگا۔
یہ وہ سنگین مسئلہ ہے کہ جس کے سبب صرف وائٹ کالر جرائم ہی نہیں، اسٹریٹ کرائم اور سنگین قسم کے جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ عدالتوں سے بروقت انصاف نہ ملنے کی راہ میں ایک دو نہیں بے شمار رکاوٹیں ہیں جن کی جانب ضیاء احمد اعوان ایڈووکیٹ نے تفصیل کے ساتھ توجہ دلاتے ہوئے آواز بلند کی ہے اور ساتھ ہی ان کے حل بھی پیش کیے ہیں۔ ’’ کراچی سٹی کورٹ میں انصاف تک رسائی میں رکاوٹیں‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جو مصنف کی انصاف کی رسائی کے سلسلے میں ایک آئینی درخواست کا خلاصہ ہے۔
بقول مصنف، یہ درخواست محض ایک قانونی اقدام نہیں بلکہ ان سب کے لیے عمل کی پکار ہے جو انصاف، برابری اور وقار کو اہمیت دیتے ہیں۔ اس درخواست میں بیان کیے گئے ڈھانچہ جاتی، انتظامی اور سماجی مسائل کو حل کر کے ہم سٹی کورٹس کو کارکردگی، سہولت اور شفافیت کی ایک مثالی عدالت بنا سکتے ہیں۔
اسی طرح اگر آپ وکیل ہیں یا عدالت میں مستقل آنے والے ہیں تو اپنے مشاہدات اور تجربات شئیرکریں۔ آپ کی آراء ان مجوزہ تبدیلیوں کو مزید موثر اور مضبوط بنانے میں مدد گار ثابت ہوںگی، اپنی صلاحیتیں رضاکارانہ طور پر پیش کریں، چاہے آپ ایک قانونی ماہر ہوں، صحافی ہوں یا کارکن، آپ کی صلاحیتیں فرق ڈال سکتی ہیں۔ اپنی مہارت پیش کریں تاکہ معلومات کی ترسیل اور وکالت کی کوششوں کو تقویت ملے۔ ضیاء اعوان اس ضمن میں اپیل بھی کرتے ہیں کہ آئیے مل کر یہ یقینی بنائیں کہ کراچی کی سٹی کورٹس ایک ایسا مقام بنیں کہ جہاں انصاف سب کے لیے قابل رسائی ہو اور ہر شخص کی عزت قائم رکھی جائے۔
ان کے مطابق ان رکاوٹوں میں مرکزی جوڈیشل کمپلیکس کی بھی ضرورت ہے جہاں جدید سہولیات بھی موجود ہوں۔ ان کی یہ بھی تجویز ہے کہ اسی طرح جب تک کوئی ایسا کمپلیکس نہیں بنتا تب تک سٹی کورٹ کے احاطے میں قائم تجاوزات کا فوری خاتمہ بھی ضروری۔ یہ تجویز بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ان کے سبب سائلین کے آنے جانے میں نہ صرف وقت لگتا ہے بلکہ سخت پریشانی ہوتی ہے، اور ان کی یہ بات قطعی درست ہے کہ ماسٹر پلان کے مطابق تمام تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے، کیونکہ کسی حادثے کی صورتحال میں یہاں ایمولینس اور فائر ٹینڈرکا داخلہ بھی مشکل ہے۔
ضیاء اعوان نے کورٹ کی عمارت کے بہت چھوٹے چھوٹے مگر اہم مسائل پر بھی توجہ دلائی ہے، جن میں عمارت کے لیے مناسب لفٹ جو آنے والوں اور وکلاء کی تعداد کے اعتبار سے ہوں کیونکہ کیسزکے سلسلے میں بار بار اوپر نیچے عدالتوں کے چکر لگانا، ایک دشوارگزار مرحلہ بھی ہوتا ہے اور اس سے وقت بھی ضایع ہوتا ہے جب کہ سائلین میں ہر عمر کے افراد شامل ہوتے ہیں ایسے میں بزرگوں کا سیڑھیوں سے کئی بار اترنا اور چڑھنا دشوار ہی نہیں بعض اوقات ناممکن بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک اور چھوٹا مگر اہم مسئلہ پینے کے پانی کا ہے جس سے وکلاء حضرات کو بھی اکثر پریشانی ہوتی ہے جب کہ آنے والے لوگوں کو دستیاب ہی نہیں ہوتا اور وہ غیر میعاری پانی کی بوتلیں خرید کر پینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
کتاب کے مصنف نے واش روم جیسے اہم ترین مسئلے کو بھی بیان کیا ہے جس پر عموماً ہمارے ہاں توجہ ہی نہیں جاتی۔ کورٹ میں روزانہ ہزاروں لوگوں کی آمدرورفت ہوتی ہے جس میں مرد، خواتین اور بچے سب ہی شامل ہوتے ہیں اور ان سب کا ایک اچھا خاصہ وقت یہاں گزرتا ہے۔ یہ لوگ اکثر دور دراز علاقوں کا سفر کر کے آتے ہیں، لٰہذا رفع حاجت کی مناسب سہولیات نہ ہونے کے سبب سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر جو واش روم یہاں دستیاب ہیں وہاں صفائی ستھرائی بھی نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتی ہے۔
مسلسل استعمال سے ماحول بھی آلودہ رہتا ہے۔ کہیں سے محسوس نہیں ہوتا کہ یہ پاکستان کے سب سے بڑے شہرکے کورٹ کے واش رومزہیں۔اسی طرح قیدیوںکے آمدورفت کے مسائل الگ ہیں، ان کے یہاں رکنے کے مسائل الگ ہیں۔ چھوٹے اور تنگ کمرہ عدالتوں میں کیسز سنتے وقت عجیب عالم ہوتا ہے،کمرہ عدالت میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ آنے والے ملزمان اور دیگر لوگ اس میں سکون سے سانس لے سکیں، جن عدالتوں میں اے سی کی سہولت ہوتی ہے، وہاں گرمی کے موسم میں اے سی بھی درست طور پر کام نہیں کرتے۔
کشادہ اور ہوا دار یا اے سی والے کمرے ناپید ہی ہیں۔ اسی طرح وکلاء اور پراسیکیوٹروں کے کمروں کی حالت ہے اور ججوں اور اسٹاف کی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔مصنف کی یہ کاوش ایک سو دس سے زائد صفحات پر مشتمل ہے، جو ان کی اپنے پیشے سے کمٹمنٹ بھی ظاہرکرتی ہے اور یہ بھی کہ انھیں اپنے ادارے سے مطلق تمام مسائل کا علم بھی ہے اور وہ ان کے حل کو بھی بہتر طور پر جانتے ہیں۔