ان کی تحریروں کو ناقدین و مبصرین نے داد و تحسین سے نواز کر نہ صرف یہ کہ ان کا حوصلہ بڑھایا بلکہ مزید لکھنے اور تحقیق کے سمندر سے گوہر نایاب نکالنے کی ترغیب بھی دی، یہی وجہ ہے رواں سال سے سال آخر 2025 تک دو کتابیں مزید شایع ہوچکی ہیں۔
اس کی وجہ ہے کہ وہ قابل ذکر شخصیات کی کھوج میں لگی رہتی ہیں اور پھر اپنی محنت، لگن اور قوت ارادی کے تحت وہ کام کر دکھاتی ہیں جو قابل رشک بھی ہوتا ہے اور ان لوگوں کے لیے حیران کن بھی جو اپنی تحریروں کو کمال کے درجے تک نہیں پہنچا پاتے ہیں جب کہ قرۃ العین کو علم و فن کے موتی صفحہ قرطاس پر بکھیرنے کا فن بخوبی آتا ہے۔
اس بار انھوں نے اردو ادب کی اہم اور بڑی لکھاری رضیہ فصیح احمد کے حیات و فن پر قلم اٹھایا اور پھر ورق ورق کھول کر تجزیاتی مطالعہ خوبصورتی کے ساتھ پیش کر دیا۔
رضیہ فصیح احمد کی ادبی خدمات کو دو ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے کہ باب اول کو ’’ حیات‘‘ باب دوم کا عنوان ’’ ادبی و فکری جہات‘‘ ہے۔ اس باب میں مصنفہ نے فکشن نگاری اور شعر و ادب کی مختلف اصناف کا جائزہ لیا ہے، کہانی اور افسانہ نگاری کے ضمن میں 9 کتابوں نے باغ ادب میں جگہ بنا لی ہے۔
اس کے علاوہ تین ناولٹ، 11 ناول، چار سفرنامے، مزاح کے رنگ سے مزین دو کتب، مکتوب اور خاکہ نگاری ’’شعری کائنات‘‘ ان تمام کتابوں کا جائزہ قرۃ العین نے نہایت باریک بینی سے لیا ہے۔
انھوں نے 168 صفحات پر رضیہ فصیح احمد کی زندگی بھرکی جمع پونجی کو جو کتابوں کی شکل میں قارئین کے سامنے ہے اس محاورے کے مصداق ’’دریا کو کوزے میں‘‘ بند کر دیا ہے اور یہ امر بے شک قابل توصیف ہے کہ ڈاکٹر قرۃ کو کام کرنے اور مستند کام کرنے کی لگن ہے، اسی جذبے کے تحت خوب محنت کرتی ہیں۔
اس کتاب کے لیے انھوں نے تحقیق و جستجو کے لیے کتنے لکھاریوں اور دانشوروں سے رابطے کیے، تب کہیں صاحبان بصیرت و بصارت کی آرا سے کتاب کو مرصع اور گواہی پیش کی کہ جو کچھ انھوں نے لکھا ہے وہ سب راستی کی روشنی اور تحریروں کی تپش سے اس انداز میں ترتیب دیا ہے گویا انگلیاں فگار ہوگئی ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی اپنی محنت، ریاضت اور لیاقت کا جو ثمر ہاتھ میں آیا وہ خوش ذائقہ اور دیرپا ثابت ہوگا(انشااللہ۔)
کتاب کے پہلے باب میں رضیہ فصیح احمد کے گھریلو حالات بیان کیے گئے ہیں، مصنفہ کی جنم بھومی مرادآباد اور تاریخ پیدائش 1934 ہے، والدین اور خاندان کی تعلیم، پیشہ اور دیگر مصروفیات کے ساتھ شادی، اولاد، تعلیمی سلسلہ اور موجودہ قیام سے آگاہی سے قاری روشناس ہوتا ہے وہ گزشتہ کئی عشروں سے امریکا کے شہر شکاگو میں رہتے ہوئے اپنے ملک، اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب جو خیال و خواب میں بسے ہوئے ہیں، اپنوں کی یادیں انھیں شاد و آباد رکھتی ہیں وہ انھیں فراموش نہیں کر سکی ہیں۔
رضیہ فصیح احمد نے جب باقاعدہ طور پر تخلیقیت کی دنیا میں قدم رکھا اس وقت وہ نویں جماعت کی طالبہ تھیں، ان کے پہلے افسانے ’’ ناتمام تصویر‘‘ کی بھرپور کامیابی نے ان کے دل و دماغ کے علمی و ادبی دریچے روشن کر دیے، وہ بتدریج کام کرتی چلی گئیں حتیٰ کہ ان گنت کتابوں کی مصنفہ بن کر گلستان ادب میں نمایاں اور دلکش شناخت بنا لی۔
1964 میں لکھا گیا ناول ’’آبلہ پا‘‘ کو 1967 میں آدم جی ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا، یقینا یہ ان کی خوش بختی ہی تھی جس نے ان کی فکشن نگاری کو جلا بخشی وہ ایوارڈ کے حصول کا احوال اس طرح بیان کرتی ہیں۔ ’’ تقریب بہت کامیاب رہی، بہت خوبصورت بٹوا ، اس میں پانچ ہزار کا چیک، بڑی سی پھول دار سند اور سنہری ڈوری میں لپٹی ہوئی اردو اور انگریزی میں تحریر۔‘‘
راج شاہی یونیورسٹی میں ’’آبلہ پا‘‘ کورس میں شامل کر لی گئی تھی، یہ سن کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ ڈاکٹر قرۃ العین نے رضیہ فصیح احمد کی علم دوستی اور خوش مزاجی کے بارے میں اس طرح خامہ فرسائی کی ہے۔
’’ مزاج کا اضطراب اور کچھ کرنے کی لگن نے ہی رضیہ فصیح احمد کی ہر فنی جہات میں طبع آزمائی کی اہلیت پیدا کی، ادب کی مختلف اصناف ہوں یا فن مصوری کے ذریعے قدرت کی صناعی کا اظہار، انگریزی میں مضامین ہوں یا مزاح سے بھرپور روزنامچے یا زندگی کے حقائق سے پُرکہانیاں سب ہی میں ان کی ہمہ جہت شخصیت کی صفات اور نظریات نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔
وہ علم دوست، ہمدرد، ملنسار، خوش مزاج اور حساسیت سے بھرپور انسان ہیں، انھوں نے زندگی سے جو کچھ سیکھا وہ سب اپنی تخلیقات میں دنیائے ادب اور انسانوں کو نئے شعور و ادراک کے ساتھ واپس کردیا، بلاشبہ رضیہ فصیح احمد کی ہمہ جہت شخصیت، ان کے چاہنے والوں اور ارباب ادب و فن کے لیے بہت نایاب ہے۔
محققہ نے مصنفہ کے افسانوں اور ناولٹ اور ناولوں کا بہت خوبصورتی سے تعارف کروایا ہے اور اس بات کی بھی آگہی دی ہے کہ رضیہ کی تحریروں کی انفرادیت اور شائستگی نے ان کے افسانوں کو وقار عطا کیا ہے، رضیہ کے افسانوں کے پہلے مجموعے کا نام ’’دو پاٹن کے بیچ‘‘ ہے۔
قرۃ العین نے افسانے کے نام اور کرداروں کی عکاسی اس طرح کی ہے کہ صرف دو سطروں میں کلیدی کردار اور وجہ تسمیہ سامنے آگئی ہے کہ ایک لڑکی کا کردار، رہن سہن اور سسرال کا ماحول بالکل مختلف ہوتا ہے، وہ لکھتی ہیں کہ ’’افسانے میں دہرے معیارات کی چکی میں پستی عورت کا درد بخوبی عیاں ہوتا ہے۔‘‘
قرۃ العین کا افسانوں کے بارے میں تبصرہ اس بات کا غماز ہے کہ رضیہ کے افسانوں کی بنت بیانیہ ہے لیکن کہیں کہیں علامتوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ وہ سادہ اور سلیس زبان میں افسانوں کے بنیادی اجزا کو بروئے کار لاتی ہیں، ان کے افسانوں کا خمیر سادگی اور سچائی کی آنچ سے اٹھا ہے۔
قرۃ العین نے افسانوی مجموعوں پر سرسری نگاہ ڈالنے پر گزارا نہیں کیا ہے بلکہ اپنے قاری کوکتابوں کی سن اشاعت اور پبلشر کے نام کے ساتھ ان کے کرداروں اور مکالمہ نگاری اور ماحول سازی کا بھی نقشہ کھینچا ہے انھوں نے اسی طرح ناول نگاری پر روشنی ڈالتے ہوئے، مصنفہ کے تمام ناولوں اور ناولٹ کا خصوصی طور پر جائزہ لیا ہے۔
رضیہ کے تمام ناولوں میں معاشرتی اورگھریلو حالات کرداروں کی نفسیات، ہجرت کا آشوب اور اس میں پرورش پانے والے وہ لوگ جن کا رویہ منفی یا مثبت رہا تمام ناولوں کی کہانیاں ابتدا سے انتہا تک قاری کے لیے تحیر اور دلچسپی کا باعث بن گئیں۔
مصنفہ کے چار سفرنامے بعنوانات سیر پاکستان، سفر ہے شرط، دو تھے مسافر، اور ’سیر کر دنیا کی‘ قرۃ العین نے سفرناموں کو توجہ اور دلچسپی کے ساتھ پڑھا اور جن پیراگراف نے انھیں متاثر کیا اسے اپنی تحریر کی زینت بنا لیا ہے۔
اس طرح بہت سی اہم باتیں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث بن گئی ہیں۔سفرناموں کے بارے میں قرۃ العین نے اپنی رائے کا اس طرح اظہار کیا ہے ’’یورپ کے ممالک فرانس، برطانیہ، بیلجیم، ہالینڈ، آسٹریا، اٹلی، سوئٹزرلینڈ اور یونان کی سفری روداد کو تفصیل سے قلم بند کیا ہے، ہوائی جہاز دبئی، ابوظہبی، دمشق اور پیرس رکتا ہوا لندن پہنچتا ہے، فضا سے ان جگہوں کا نظارہ پاکستان میں چھوٹے بیٹے ایرج کا خیال، اس سفرکو آغاز سے ہی یادگار بنا دیتا ہے۔‘‘
رضیہ کی شاعری کا بنیادی حوالہ غزل ہے، قرۃ العین نے ان کی نظم و غزل اور خاکہ نگاری کا محاکمہ اپنی بصیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا ہے اور ممتاز شعرا کی آرا کو بھی شامل تحریرکیا ہے۔ غزل کے یہ اشعار جو حالات زمانہ اور اس کی تلخیوں کا پتا دیتے ہیں:
طوفان تھا کہ لاکھ بلاؤں کا رقص تھا
سو بستیوں کو دشت بنا کر گزرگیا
یہ سسکیاں سکوت کی چیخوں سے کم نہیں
ہر شخص یوں ہے جیسے کہ اندر سے مرگیا