اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ سامنے دو اور دو چار جیسی بات ہے کہ اس میں اگر چار امیدوار کھڑے ہوں اور ووٹ بھی چار ہزار ہوں تو ان میں اگر کوئی ایک ہزار ایک ووٹ لے تو کامیاب ہوتا ہے جب کہ ایک کم تین ہزار ووٹ اس کے مخالف پڑے ہوتے ہیں وہ سب گئے باڑ میں، اور ایک ہزار ایک آئے اقتدار میں۔ یہ اقلیت کی حکومت ہوتی یا نہیں۔ آج تک جتنے بھی انتخابات ہوتے رہے ہیں اور حکومت کرتے رہے ہیں، ان میں بہت کم حکومتوں کے کل ووٹوں میں پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں لیے ہوں گے لیکن یہ وہی ایک ووٹ کی برتری کی حکومت اقلیت ہی کی حکومت ہوتی ہے، یہ جو ہمارے جدید تر بانی کے ’’طوطے‘‘ آئے ہیں اور مینڈیٹ، مین ڈیٹ کر رہے ہیں۔
ان میں کسی نے بھی کسی پچاسی فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں لیے ہیں اور وہی سلسلہ چل رہا ہے کہ مخالف ووٹ تقسیم ہوئے اور بانی کی بے وقت ’’شہادت‘‘ بھی کام آئی، اگر اسے بے وقت شہید نہیں کیا گیا ہوتا اور وہ اپنی ٹرم پورا کرتا تو الیکشن میں لوگ اس پر تھو تھو کرتے کیوں کہ اس نے اوراس کی حکومت نے اور اس کی پارٹی نے اس ملک کا بیڑہ غرق کر دیا تھا۔
خیر اندر کی گہری باتوں میں الجھے بغیر یہ بات تو صاف ہوگئی کہ اس ملک میں ہمیشہ اقلیت ہی حکومت کرتی رہی ہے، ایک بار سوئے اتفاق سے اکثریت چونکہ ناپسندیدہ تھی اس لیے ملک ہی کو توڑ کر اقلیت کو حکومت دی گئی۔ یہ اقلیت کا اکثریت پر حکومت کرنے، اس کی کمائی کھانے اور غلام بنانے کا سلسلہ بہت پرانا ہے، یہ اس وقت سے ہے کہ جب کسی نامعلوم زمانے میں، کسی نامعلوم مقام پر اور کسی نامعلوم طریقے پر ’’ہم‘‘ اور ’’میں‘‘ یا جن وانس یا آدم وابلیس کا وہ واقعہ ہوا تھا جس میں ابلیس نے ’’میں‘‘ کا برتری کا دعویٰ کیا اور اس زمانے سے لے کرآج تک یہ دونوں یعنی ’’میں‘‘ اور ’’ہم‘‘ دونوں ایک دوسرے کے مقابل چلے آرہے ہیں، ان کاپورا ’’شجرہ‘‘ کچھ یوں ہے ۔
گوشت خور… سبزی خور
جن… انس
شکاری… زرعی
جانورپال… کاشت کار
صحرائی… مدنی
خانہ بدوش… بستی والا
ڈاکو… لٹنے والا
محافظ… آدمیہ
حکمران… محکوم
اشراف… عوام
بہت کچھ بدلا، نام بدلے، مقام بدلے، ہتھیار بدلے، طریقے بدلے، عقیدے بدلے، نظرئیے بدلے لیکن طبقے وہ ہیں جن میں سے ایک کے سر ے پر خاکی آدم اور دوسرے سرے پر ناری ابلیس کھڑا ہے۔ ناری اور خاکی کے آپ کچھ بھی معنی نکالیں لیکن ایک معنی یہ ہیں اور یہی معنی ثابت شدہ بھی ہیں کہ گوشت خور شکاری کو جب پتھرکا ہتھیار تراشتے ہوئے ’’آگ‘‘ جیسی انقلابی قوت ملی تو اس وقت آج کی ’’ایٹمی قوت‘‘ تھی اور اس پر برتری کا دعویٰ بھی ویسا ہی تھا جیسے آج کے ایٹمی ممالک کو ہے، اس کے مقابل سبزی خوروں کے پاس کچھ بھی نہ تھا چنانچہ گوشت خور ناریوں نے غلہ خور خاکیوں کو کوہستانی باغوں سے نکالنا شروع کیا، وہ کیا کرتے؟ کہ نہ ان کے پاس کوئی ہتھیار تھا، نہ جارح مزاج تھے، نہ لڑائی کی خوبو رکھتے تھے۔
اس لیے وہی کیا جو کمزور لوگ کرتے ہیں، ہجرت کر کے نیچے کے میدانی علاقوں میں زراعت کار یا دوسرے معنی میں خاکی زمین زادے بنے، ان کی محنت رنگ لائی اور زمین سے رزق نکال کر خوشحال ہوگئے، پیچھے سے ظالم سنگدل اور مسلح ناری بھی اتر آئے جو اب جانور پال صحرائی اور خانہ بدوش بن چکے تھے۔ پھر ایک طویل زمانہ یوں گزرا کہ یہ وحشی خانہ بدوش صحرائی، زرعی اور مدنی لیکن غیرمسلح اور امن پسند کو لوٹ لیتے تھے، مقابلے میں خاکیوں کے پاس نہ ہتھیار تھے، نہ جنگ جویانہ مزاج رکھتے تھے، زیادہ سے زیادہ دیواریں بنا سکتے تھے۔ یہ طویل زمانہ گزرا تو ذہنی ارتقاء بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا چنانچہ لٹیرے نے سوچا لوٹ کر واپس جانے کی کیا ضرورت ہے، ہتھیار لے کر ان کے سر پر کیوں نہ بیٹھا جائے چنانچہ اس نے اپنا نام بدل کر لٹیرے سے ’’محافظ‘‘ رکھ لیا اور گائے کو کھوہ کر کھانے کی بچائے چوہ کر کھانے لگا، یہی آج کی اشرافیہ ہے، حیرت انگیز طور پر اب بھی آتشی اور ناری پتھر تراشتے وقت جو آگ اسے ملی تھی وہ ہمیشہ اس کا ہتھیار رہی ہے۔
پتھر کے زمانے کے بعد، دھاتوں کے ہتھیار بھی آگ کی مدد سے تیار ہوتے تھے پھر ’’لغت‘‘ بھی آگ تھی، بارودی ہتھیار بھی آگ تھے اور آج کے ایٹمی ہتھیار بھی آگ ہیں اور یہ ہمیشہ اشرافیہ کے قبضے میں رہتی ہے، اصل حکومت اب بھی آتشیں ہتھیاروں کے زور پر کی جاتی ہے، یہ جمہوریت، آئین، قانون وغیرہ صرف باتیں ہیں۔ یوں کہیے کہ ’’رادھا‘‘ آج بھی ان کے آنگن میں نچائی جاتی ہے جن کے پاس نومن تیل ہوتا ہے اور یہ تیل پچاسی فیصد کنوؤں سے یا کولہوؤں سے نکالا گیا ہوتا ہے۔