مگر جب فلسطینی نژاد امریکیوں کا معاملہ ہو یا کسی غیر فلسطینی ( ریچل کوری ) کی ’’ غلطی ‘‘ سے ہلاکت کا سانحہ ہو یا اسرائیل بھولے سے امریکا کے درجنوں فوجی ( یو ایس ایس لبرٹی ) مار دے یا جان بوجھ کر کسی نوعمر امریکی کو قتل یا قید کردے تو امریکا اپنے ہی شہریوں سے لاتعلق ہونے میں دیر بھی نہیں لگاتا۔
مثلاً دوسرے انتفادہ کے عین عروج کے دور میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے وارننگ جاری کی کہ امریکی شہری اسرائیل ، غزہ اور غربِ اردن کے غیر ضروری سفر اور بلامقصد قیام سے پرہیز کریں۔
اس ہدائیت پر عمل کرتے ہوئے جب چار جون دو ہزار بائیس کو چالیس فلسطینی نژاد امریکی شہری وطن واپسی کے لیے تل ابیب کے بن گوریان ایرپورٹ پہنچے تو امیگریشن حکام نے انھیں روک لیا۔ان سے کہا گیا کہ اسکریننگ کے بعد واپسی کی اجازت ملے گی کہ کہیں وہ اسرائیل یا مقبوضہ علاقوں میں اپنے قیام کے دوران کسی ہنگامہ آرائی یا دھشت گردوں سے رابطوں یا ان کی مدد میں تو ملوث نہیں تھے۔امریکی وزیرِ خارجہ کولن پاویل کو اسرائیل سے ذاتی طور پر سر کھپا کے ان امریکی فلسطینیوں کی گلوخلاصی کروانا پڑی۔
سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے بعد سے اسرائیل نے امریکی و مقامی کا امتیاز ختم کر دیا ہے۔ جنوری دو ہزار چوبیس میں نیو آرلینز کا رہائشی سترہ سالہ توفیق عبدالجبار کچھ عرصے کے لیے مغربی کنارے میں اپنے رشتے داروں سے ملنے آیا۔ ایک روز وہ مسلح یہودی آبادکاروں کے ہتھے چڑھ گیا اور اسے پولیس کی موجودگی میں گولی مار کے ہلاک کر دیا گیا۔اس کا قاتل تین روز بعد ضمانت پر رہا ہو گیا۔
پام بے فلوریڈا کا رہائشی پندرہ سالہ محمد ابراہیم اپنے والد زاہر اور والدہ مونا کے ہمراہ تعطیلات گذارنے اس سال فروری میں مغربی کنارے کے شہر رملہ کے نواحی گاؤں مزرا الشرقیہ پہنچا۔اس گاؤں کو مغربی کنارے کا میامی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کے اکثر باشندے ریاست فلوریڈا میں رہتے ہیں۔
ایک رات گھر کا دروازہ ٹوٹا ، مسلح اسرائیلی فوجی گھس آئے اور محمد ابراہیم کی آنکھوں پر پٹی باندھ کے فوجی گاڑی میں پٹخا اور بندوق کے بٹوں سے مارتے ہوئے اوفر ملٹری کیمپ میں لے گئے۔
فوجیوں نے گھر والوں میں سے کسی کو نہیں بتایا کہ بچے کا جرم کیا ہے۔اوفر کیمپ سے محمد ابراہیم کو تھانے میں منتقل کیا گیا۔جہاں اس سے ایک نقاب پوش افسر نے تفتیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم نے اعتراف نامے پر دستخط نہ کیے تو تمہیں اور مارا جائے گا۔محمد نے مزید تشدد کے خوف سے اعتراف نامے پر دستخط کر دیے۔اس میں اقرار کیا گیا کہ میں نے چند دیگر بچوں کے ہمراہ سڑک پر ایک آبادکار کی گاڑی پر پتھراؤ کیا ( اسرائیلی قانون کے مطابق پتھراؤ کی سزا بیس برس قید ہے ) ۔
محمد ابراہیم کو قید میں لگ بھگ نو ماہ بیت چکے ہیں۔یروشلم میں امریکی سفارت خانہ اس کے والدین کو کئی ماہ سے یقین دلا رہا ہے کہ رہائی کی کوششیں جاری ہیں۔امریکی کانگریس کے ستائیس ارکان نے وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اور اسرائیل میں امریکی سفیر مائک ہوکابی کو مشترکہ خط میں محمد ابراہیم کو جلد از جلد رہا کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔
جیل میں قید محمد کو اب تک نہیں بتایا گیا کہ اس کے بیس سالہ سالہ کزن سعید مسلت اور دوست محمد الشلابی کو گیارہ جولائی کو اسرائیلی آبادکاروں نے المرا قصبے میں زمین پر قبضے کی مزاحمت کرنے پر مار مار کے قتل کر دیا۔
سعید مسلت بھی امریکی شہری تھا۔چنانچہ امریکی سفیر مائک ہوکابی کو بادلِ نخواستہ سعید کے گاؤں میں تعزیت کے لیے آنا پڑا۔مگر سفیرِ موصوف نے اسرائیلی حکومت کے ہاتھوں اپنے شہری کی ہلاکت پر ایک احتجاجی لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا۔دو امریکی سینیٹروں نے بھی سعید کے گھر جا کر تعزیت کی۔
گذرے ستمبر میں بچوں کی قانونی معاونت کرنے والی ایک اسرائیلی تنظیم ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل کی وکیل سحر فرانسس کو کئی انتظامی پاپڑ بیلنے کے بعد بالاخر محمد ابراہیم سے ملنے کی اجازت ملی۔سحر کا کہنا ہے کہ دورانِ قید محمد کا وزن تیس پاؤنڈ تک گر چکا ہے۔اس کی کوٹھڑی میں کل آٹھ بچے اور چار بینک بیڈ ہیں۔چوبیس گھنٹے میں دو بار کھانا ملتا ہے۔
یعنی ناشتے میں ایک بڑا چمچ دہی اور بریڈ کے چند ٹکڑے۔ دوپہر کو ایک کپ ابلے چاول ، ایک چھوٹا سوسییج اور کھیرے اور ٹماٹر کے دو تین ٹکڑے دیے جاتے ہیں۔محمد ابراہیم اور دیگر بچوں کو جلدی خارش ہو گئی ہے اور جسم اکثر کھجاتے رہنے سے خراشیں پڑ جاتی ہیں۔ان سب کو پتلے پتلے سے گدے ملے ہوئے ہیں جن کی کبھی دھلائی نہیں ہوتی۔سیل میں قرآنِ مجید کا ایک نسخہ بھی رکھا ہوا ہے۔ہفتے میں ایک بار نہانے کی اجازت ہے مگر قیدیوں کی قطار اتنی لمبی ہے کہ بہت سے بچوں کی باری نہیں آتی۔
اسرائیلی قید خانوں میں اس وقت اٹھارہ برس سے کم عمر کے لگ بھگ تین سو ساٹھ بچے قید ہیں۔ان میں سے چالیس فیصد پر کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی باضابطہ فردِ جرم عائد نہیں ہو سکی۔بیشتر بچوں کو سزا میں کمی کا لالچ دے کر اعترافی بیانات پر پیشگی دستخط کرانے کے باوجود عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔نہ ہی انھیں گھر والوں سے رابطے کی اجازت ہے۔
محمد ابراہیم کے مقدمے کی اگلی سماعت نو نومبر کو ہے اور والدین کو قوی امید ہے کہ شاید ان کا بیٹا رہا ہو جائے۔گزشتہ سماعت کے موقع پر محمد کے والد نے میڈیا سے کہا کہ اگر کوئی اور امریکی شہری اسی طرح وینزویلا کی قید میں ہوتا تو ٹرمپ اب تک چڑھائی کر چکا ہوتا۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو محمد ابراہیم اور اس کا قتل ہونے والا عم زاد سعید مسلت فلسطینی ہیں۔ لہٰذا وہ امریکی شہری ہیں یا نہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔وہ امریکی ہو کر بھی انصاف کی قطار میں پیچھے ہی رہیں گے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)