اُردو زبان میں صدیوں پر مشتمل اِس ارتقائی سفر میں نعت نے فکر، اُسلوب اور ہیئت کے لحاظ سے کئی مراحل طے کیے، البتہ جو مضامین آغاز سے اب تک نعتیہ ادب کا حصہ رہے ہیں اُن میں حضورِ اکرمﷺسے عشق و محبت کا جذبہ ایک ایسا جذبہ ہے جو کہ نعت کا سب سے بڑا موضوع ہے اور پھر بقول امجد اسلام امجد باقی ’’جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاؤ ہے۔‘‘
اِس پھیلاؤ میں دربارِ نبویﷺ میں حاضری و حضوری کی تڑپ، حضورِ اکرمﷺ کے فیضان، درود و سلام، اُسوۂ حسنہ، تعلیماتِ نبی کریمﷺ کیا کچھ شامل نہیں ہو جاتا، اور جوں جوں کرۂ ارض پر نبی کریمﷺ کے نعت نگاروں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، نت نئے موضوعات بھی شامل ہوتے جاتے ہیں۔
اُردو میں نعت نگاری کے آغاز میں بیشتر شعراء نے اپنے شعری مجموعوں میں حمد و نعت محض ایک مذہبی عقیدت کے طور پر شامل کی اور اس کے اُسلوب و مضامین پر زیادہ توجہ نہیں کی۔ ابتدا میں زیادہ تر شعرا نے تو سادہ سے نعتیہ اشعار میں ہی عجزِ اظہار پر اِکتفا کیا، تاہم ابتدائی طور پر جن شعرا نے نعت گوئی میں شعری اسالیب، رجحانات اور محاسن پر خصوصی توجہ دی اُن میں محسن کاکوروی کا نام سرِ فہرست آتا ہے، مرزا غالب کے کلام میں بھی نعت موجود ہے، اگرچہ ’’ دیوانِ غالبؔ‘‘ میں اُن کے اُردو کلام میں کوئی نعت موجود نہیں۔
نعت کے فروغ اور تخلیقی و تقدیسی حوالوں سے ابتدائی دَور میں امیر مینائی، الطاف حسین حالیؔ، علامہ اقبالؔ، ظفرؔ علی خان اور حفیظؔ جالندھری کے نام قابل ذکر ہیں جنھوں نے نعت کو فنی اور فکری حوالوں سے زرخیز کیا اور اہلِ فن کواپنی نعت نگاری سے اِس کے امکانات سے آشنا بھی کیا۔
یہ رجحان بڑی آہستگی سے پروان چڑھتا گیا اور اِس کے ارتقائی مراحل کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا، چناںچہ آج کے کئی نعت گو شعراء کی نعتوں میں بھی عصری حسیت کا عکس دِکھائی دینے لگا ہے۔ واضح رہے کہ یہ عصری حسیت جب انسانی حیات کے ایک کامل و اکمل نمونے، حضورِ اکرمﷺ کے ساتھ خالص ادبی اور جمالیاتی اظہاری سانچے کے ساتھ منسلک ہوتی ہے تو نعت کی ایک کہکشاں روشن ہونے لگتی ہے۔
اِن ادبی، جمالیاتی، اظہاری سانچوں کا دائرہ کار محض غزلیہ ہیئت کی نعت گوئی تک محدود نہیں بلکہ اِس میں نظم،آزاد نظم، نثری نظم، مثنوی، رباعی، قصیدہ، مسدس، قطعہ، ماہیا، مثلث، ثلاثی، ہائیکو، دوہا اور دیگر کچھ نَو دریافت ہیئتیں مثلاً تروینیاں اور چوکھمبیاں بھی شامل ہیں، تاہم یہاں ہمارا موضوع اِس کتاب کی مناسبت سے صرف غزلیہ ہیئت کی نعت گوئی ہے اِس لیے دیگر ہیئتوں یا اصنافِ سخن کا ذکر ہمارے موضوع کے دائرے سے خارج ہے۔
اِسی تقدیسی رہ گزر پر اُن شعرا کے نقوشِ قدم پر بعد میں چلنے والوں کے کچھ اسمائے گرامی ملاحظہ ہوں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ نبیِ کریمﷺ کے عقیدت مندوں کا دائرہ مسلسل وسعت پذیری اختیار کرتا جا رہا ہے۔
(یہاں تقدیم و تاخیر سے بالاتر ہوکر جو جو نام یاد آ رہے ہیں لکھے جا رہے ہیں۔ راغب مرادآبادی، صبا اکبر آبادی، عبدالعزیز خالد، عارف عبد المتین، محمد اعظم چشتی، راجا رشید محمود، حنیف اسعدی، بہزاد لکھنوی، احسان دانش، عاصی کرنالی، طفیل ہوشیار پوری، ڈاکٹر عزیز احسن، بشیر حسین ناظم، ذوقی مظفر نگری، اقبال عظیم، منور بدایونی، مسرورکیفی، صبیح رحمانی، قمر وارثی، قمر رعینی، ڈاکٹر احسان اکبر،سلیم کوثر، رشید ساقی، ڈاکٹر مظہر عباس رضوی، جسٹس (ر) محمد نذیر اختر، ڈاکٹر افتخار الحق ارقم، وغیرہ۔ کچھ بعد میں اِس قافلۂ عشاق میں شامل ہونے والوں میں ریاض حسین چوہدری، عبدالمجید چٹھہ، محمد طاہر صدیقی، منظر پھلوری، مشرف حسین انجم، مقصود علی شاہ، آفتاب مضطر، اکرم کنجاہی، اشفاق احمد غوری، پروفیسر جلیل عالی، عرش ہاشمی، سید شاکر القادری، شاعر علی شاعر، حافط نور احمد قادری، حنیف نازش قادری، سید محمد عارف قادری، تصور اقبال، شاہ محمد سبطین شاہ جہانی، سید طاہر، جنید نسیم سیٹھی اور منظر عارفی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
جب کہ نعت گو شاعرات میں بسمل صابری، حمیرا راحت، شہناز مزمل، بیگم نصرت عبد الرشید، نورین طلعت عروبہ، بشریٰ فرخ، جیا قریشی کے نام ذہن میں آ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ فہرست کسی طرح بھی مکمل نہیں اور نہ ہو سکتی ہے کہ راقم السطور کو پاکستان کے کئی شعرا اور اُن کے کلام تک رسائی حاصل نہیں، جب کہ نعت گو شعرا و شاعرات کا حلقہ ماشاء اللہ دن بہ دن پھیل رہا ہے، اور ’’وَرَفَعنَالَکَ ذِ کرَک‘‘ کی عملی مثال پیش کر رہا ہے۔اِس دیباچے کا اختتام محمد یامین وارثی (مرتب)، شاعر علی شاعر (ناشر) اور اُن کے ادارے رنگِ ادب پبلی کیشنز، کراچی کے لیے اظہارِ تشکر اور احتراماتِ فراواں کے ساتھ کر رہا ہوں کہ وہ عہدِ حاضر میں کتاب کی ناقدری کے باوجود یہ ضخیم نعتیہ انتخاب عشقِ رسولﷺ کے جذبے سے سرشار ہو کر ترتیب دلوا کر شایع کررہے ہیں، اگر نعت کی تاریخ دیکھیں تو پہلا نامِ نامی آپﷺ کے چچا ابوطالب کا سامنے آتا ہے۔
کچھ نام نبیِ رحمت دو عالم کی پیدائشِ مبارکہ سے پہلے بھی ہیں جن میں ’’ تبع حمیدی‘‘ اور ’’ورقہ بن نوفل‘‘ شامل ہیں۔ دربارِ رسالتﷺ میں نعت پیش کرنے والے صحابی حسان بن ثابتؓ کو دربارِ رسالتﷺ کے نعت گو ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
آپﷺ کے صحابہؓ جنھوں نے نعتیں کہیں اُن میں حضرت حسانؓ بن ثابت، اسودؓ بن سریع، عبداللہؓ بن رواحہ، عامرؓ بن اکوع، عباسؓ بن عبدالمطلب، کعبؓ بن زبیر، نابغہؓ جعدی و دیگر شامل ہیں۔ دربارِ رسالتﷺ سے عصر حاضر تک اکابرینِ تقدیسی ادب و علماء نعت گوئی میں مصروفِ عمل ہیں۔ اِن شاء اللہ یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔
نعت نگاری کے فن پر خانقاہی اثر غالب رہا ہے۔ نعت تو ایک عرصے سے لکھی جارہی ہے، مگر بیسویں صدی اور اکیسویں صدی میں تواتر سے نعتیہ مجموعوں کی اشاعت اظہار و ابلاغ کا ذریعہ بنی۔ فارسی کے زیر اثر غزل اور نعتیہ رجحان سے ادب پر گہرا اثر مرتب کیا۔
نعت کا یہ تخلیقی، تہذیبی اور وجدانی سفر ماضی قریب اور عصر موجود میں نعتیہ طبع آزمائی کے نئے دریچے وا کردیتے ہیں۔ اب یہ عالم ہے کہ صبح و شام مدحتِ رسولﷺ کے نئے نئے قمقمے نور بیزی فرما رہے ہیں۔
اب یہ صنف زور اور ترقی کی طرف سفر کر رہی ہے۔ اِن نئے نعتیہ جزیروں نے نعتیہ ادب کا کینوس بہت وسیع کردیا ہے، جیسا کہ اُردو غزل کا دامن اب تنگ دامانی کا شکوہ نہیں کرتا، بہ ایں تقدیسی ادب میں بھی نئے شگوفے کھل رہے ہیں۔
عصر موجود کے منفرد و ممتاز شاعر صبیح رحمانی لکھتے ہیں۔ ’’آج کی نعت ثنائے حبیب کبریا سے محرابِ جلیل کی طرف سفر کر رہی ہے۔ یہ سفر حکمِ خداوندی کے عین مطابق ہے، اِس لیے کہ اللہ تک رسائی حضورﷺ کے وسیلۂ جلیلہ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ قلم دہلیزِ مصطفیﷺ کو چوم کر بارگاہِ خداوندی میں سجدہ ریز ہوتا ہے۔ شاعر بارگاہِ خداوندی میں التماس گزار ہے:
رفتہ رفتہ کھول مجھ پر راز ہائے جسم و جاں
دھیرے دھیرے مجھ پہ ظاہر تو مِری پہچان کر
اکابرین نعت کا جوش و خروش ہر لمحہ بڑھتا ہی رہتا ہے۔ خاص طور پر طرحی مشاعروں میں روایت سے بغاوت، ممکن تو نہیں ہے، مگر روایت سے جڑے رہتے ہوئے اپنی ریاضت و بصیرت کے تحت نئے موضوعات و لفظیات کو خوش مزاجی سے برتنا ایمان کو تقویت بخشتا ہے۔
اِس سے جمالیاتی اقدار متاثر ہونے کے بجائے طبع آزمائی میں نکھار آتا ہے۔ یوں ایک نعت گو شاعر روایت اور جدیدیت کے امتزاج سے اکتسابِ ہنر میں طاق اور نبی اکرمﷺ کی محبت مبارکہ سے جڑ کر اپنی منزل کو پا لیتا ہے۔