یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ میڈیا کی جانب سے پیش کردہ یہ منظر نامہ حقیقت ہے یا حقیقت سے انحراف کی کوشش؟ کیونکہ اخبارات کی سرخیاں ہو یا نیوز بلیٹن کے جملے، ہر جانب یہی زاویہ نظر دکھائی دیتا ہے کہ ملکی حالات سنبھل رہے ہیں۔
لیکن حکمرانوں کے بیانات اور سیاسی خبرناموں کے برعکس عام آدمی کے معیار زندگی کا جائزہ لیا جائے یا ترقی کے دعوؤں کا ثبوت عوام الناس کی زندگیوں میں ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ تنزلی جیسے ہمارے لوگوں کا مقدر بن گئی ہے اور وہ خوشحالی کے دعوے محض خیالی داستانیں ہیں۔
ان حکایتوں کی ممکنہ توجیہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس ملک میں دو پاکستان ہیں اور روٹی، کپڑا، مکان جیسے مسائل سے الجھتے پاکستان کے مقابل دوسرا پاکستان خوشحال اور مطمئن ہے، بس وہ حالات کی چکی میں پستے پاکستانیوں کی نظروں سے اوجھل اور پہنچ سے دور ہے۔
طبقاتی تقسیم کے تناظر میں پاکستانی شہری تین گروہوں میں منقسم ہیں۔ پہلا گروہ ان پچاس فیصد پاکستانیوں پر مشتمل ہے جن کے عید کے دن کا دسترخوان بھی دل کی خواہش نہیں بلکہ بجٹ کے حساب سے سجتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو نیا سوٹ بنانے،گوشت اور میٹھا کھانے کے لیے عید کا انتظار کرتے ہیں مگر وائے قسمت کہ عموماً عید سے پہلے کوئی اچانک بیماری،کوئی قرض، کسی بچے کے اسکول کی فیس یا دیگرگھریلو اخراجات جیسے عفریت ان کے عید کے بہانے ایک دن بے فکری اور خوشی سے جینے کے خواب کو نگل لیتے ہیں۔
نیا سوٹ زیادہ سے زیادہ بچوں کے لیے بنتا ہے اور دسترخوان دال سبزی پر ہی مشتمل رہتا ہے۔ تقریبا چھیالیس فیصد لوگ وہ ہیں جو مقدم الذکر غریبوں کے لحاظ سے بہترین زندگی گزار رہے ہیں، مگر ان میں بھی نصف کی زندگی پرسکون ہے تو بقیہ کے قصہ حیات کا عنوان ’’ جدوجہد‘‘ ہوتا ہے۔
ذاتی اور اچھا گھر، بچوں کی اچھی تعلیم اور شادیاں، اچانک ضرورت یا بیماری کے حملے پرکسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچ جانا وغیرہ متوسط طبقے کی بڑی کامیابیاں ہوتی ہیں۔ پھر آتا ہے وہ ملک کی کل آبادی میں سے چار فیصد پر مشتمل طبقہ جنھیںعرف عام میں اشرافیہ کہا جاتا ہے۔ ان کے لیے راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔
خوشحالی کے نعروں اور محنت کش طبقے کے طرز زندگی میں تضاد اور امرا کا طرز بود و باش دیکھ کر خیال آتا ہے، یہ آسودگی و ترقی کی باتیں غلط نہیں، بس یہ قریباً چھیانوے فیصد عام پاکستانیوں کے بجائے چار فیصد ایلیٹ کلاس کے متعلق ہیں۔
عوام کی زندگیوں کی تلخ مگر ناقابل تردید حقیقت تو یہ ہے کہ سالوں سے روز بروز بڑھتی مہنگائی اور پے در پے قدرتی آفات نے گزرتے وقت کے ساتھ ان کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ پہلے متوسط طبقے کہ وہ عزت دار لوگ جو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے بغیر کھینچ تان کرگزارا کرتے ترقیوں کے خواب دیکھ رہے تھے،اب ان کی تگ و دوکا دائرہ کار بھی بنیادی ضروریات ہیں۔
ماضی میں کسانوں کے لیے فصلوں کی آمدنی زندگی کی گاڑی دھکیلنے کو کافی تھی لیکن گزشتہ چند سالوں سے کاشتکاری کے بڑھتے اخراجات اور فصلوں کی قیمتوں میں نہ ہونے کے برابر اضافے نے ایکڑوں کے مالکوں کو چھوڑ کر چھوٹے کسانوں کی زندگیوں کو قابل رحم بنا دیا ہے۔
90 فیصد پاکستانی پرائیویٹ سیکٹر سے جڑے ہیں جہاں مہنگائی کے طوفان کے مقابلے میں تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت نہ لوگوں کو سرکاری نوکریاں فراہم کر سکی اور نہ پرائیویٹ سیکٹر میں انھیں استحصال سے بچانے کے لیے کوئی قانون پاس کر سکی۔ حکومت بھلے اپنی کوششوں کے باوجود غربت سے نبرد آزما ہوتے شہریوں کی مشکلات کو ختم نہ کر پائی ہو، مگر ’’ ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن‘‘ کی پالیسی کے سبب نادانستہ طور پر ہی سہی ہزاروں گھرانوں کو مشکلات کی کھائی میں دھکیل چکی ہے۔
اس کی زد میں آنے والے یہ ہمارے وہ ان پڑھ یا واجبی سی تعلیم رکھنے والے ہم وطن ہیں جنھوں نے زندگی کی تمام توانائیاں اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے اور اگلی نسل کو محفوظ مستقبل دینے کی خاطر انھیںحسب استطاعت بہترین تعلیم دلوانے میں صرف کیں۔
اب جب وہ لوگ ادھیڑ عمری یا بڑھاپے کو پہنچے ہیں، ان کے بہتر مستقبل کے خوابوں کی تعبیر اس صورت میں سامنے آئی ہے کہ ان کے جوان تعلیم یافتہ بچے نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور وہ اپنا روزی روٹی کا ذریعہ بھی گنوا بیٹھے ہیں۔
غیر قانونی تجاوزات کا خاتمہ اگر حکومتی پالیسی ہے تو ہم اس کا احترام کرتے ہیں لیکن ذہنوں میں یہ سوال ضرور ابھرتا ہے کہ متاثرہ لوگوں کو متبادل روزگار کے مواقع فراہم کرنا کیا ریاستی ذمے داری نہیں؟ اور اگر ناکافی وسائل اور دیگر وجوہات کی بنا پر یہ ممکن نہیں تو ایسے میں یہ مخدوش کن کارروائیاں کیا دانشمندانہ فیصلہ ہیں؟
یہ اقدامات قانون کی پاسداری کے نام پرکیے جاتے رہے ہیں لیکن ملک میں قانون کی بالادستی کا عالم تو یہ ہے کہ غریب کو فاقوں کے بچانے کے لیے قانون نہیں بدلے جا سکتے مگر سرکاری ہاؤس کو خوبصورتی بخشنے کے لیے تمام قوانین کو باآسانی پس پشت ڈالا جا سکتا ہے۔
نادار عوام کو مشکلات سے بچانے کے لیے نام نہاد آپریشن کے قوانین میں ترمیم نہیں کی جا سکتی لیکن سرکاری ہاؤس کی سجاوٹ کے لیے عوام کو لیز پر دی گئی درجنوں دکانوں کے معاہدے کو پل بھر میں ضرور ختم کیا جا سکتا ہے۔
کیا شفافیت اور قانون کی پاسداری تب ممکن ہے جب حکومت خود اپنے معاہدوں کی خلاف ورزی کرے؟ضلع سرگودھا میں جیل روڈ پر ’’ جیل مارکیٹ ‘‘ کے نام سے مشہور مارکیٹ جو تقریبا 90 دکانوں پر مشتمل تھی، جس سے قریباً دو ہزار لوگوں کا روزگار جڑا تھا، 10 ستمبر 2025 کو ملبے کا ڈھیر بنا دی گئی۔
اس مارکیٹ کی آدھی دکانوں کی زمین 1980 میں حکومت کی جانب سے سو سال کے لیے لوگوں کو لیز پر دی گئی تھی۔ بقیہ آدھی دکانوں کی زمین 2017 میں لوگوں کو دی گئی تھی۔
دکاندار معاہدے کے مطابق کرایہ باقاعدگی سے حکومتی خزانے میں جمع کرواتے تھے۔ 2022 میں لیز کے معاہدے کی مدت سے متعلقہ قانون میں ترمیم ہوئی اور 2023 میں پانچ سال کے لیے دوبارہ معاہدہ کیا گیا، لیکن پانچ سال پورے ہونے سے قبل مارکیٹ بنا کسی نوٹس کے منہدم کردی جاتی ہے۔
مارکیٹ کو گرانے کی وجہ یہ تھی کہ اس کے عقب میں دو ایکڑ کے رقبے پر ڈی پی او ہاؤس بنایا گیا تھا۔ اس سرکاری محل کی تزین و آرائش کے لیے مارکیٹ کی جگہ پر گرین بیلٹ بنانے کا منصوبہ تشکیل دیا گیا تھا جس کی تکمیل کے لیے مارکیٹ گرانا ناگزیر تھا۔