’پیارے مولانا ‘اور خواجہ سعد رفیق

خواجہ سعد رفیق نے ایک ایسی بات کہہ دی ہے جو اگر کچھ لوگوں کی سمجھ میں آ گئی توامکان ہے کہ اس ملک کا نظریاتی لینڈ اسکیپ ہی تبدیل ہو جائے گا۔ خواجہ صاحب نے کیا کہا ہے، یہ سمجھنے کے لیے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ کچھ ذکر مولانا مودودیؒ کا ہو جائے اور ان کی رعایت سے مخدومی الطاف حسن قریشی صاحب کا۔مخدومی الطاف حسن قریشی کو دنیا صحافی کی حیثیت سے جانتی ہے۔ وہ یقیناً صحافی ہیں لیکن ان کی اصل شناخت اردو ڈائجسٹ ہے جو انھوں نے اپنے برادرِ بزرگ جناب اعجاز حسن قریشی مرحوم کے ساتھ مل کر ساٹھ کی دہائی میں شایع کیا تھا۔ اردو ڈائجسٹ کے ذکر پر غالب کی یاد آتی ہے  ؎

میں چمن میں کیا گیا، گویا دبستاں کھل گیا

بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں

یہ پرچہ محض ایک ڈائجسٹ نہیں تھا، عشق کی داستان ہے جس کا تعلق صرف ہماری زبان یعنی اردو اور صحافت سے نہیں بلکہ اس ملک کے نظریاتی منظرنامے سے بھی ہے۔

سرد جنگ نے اس ملک پر کئی کرم فرمائیاں کی ہیں۔ ان میں ایک کا تعلق سرمایہ دارانہ اندازِ فکر سے تھا اور دوسری کا اشتراکیت سے۔ اس زمانے میں ہمارے ملک پر ان دو نظریاتی دھاروں کے درمیان گھمسان کا ایسا رن پڑا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ یوں گویا پاکستان، اس کے مقاصد اور نظریات طوطی کی آواز بن گئے ،نقار خانے میں جس کی کوئی نہیں سنتا۔

اس طوفانِ ہاؤہو میں جناب اعجاز حسن قریشی کا اردو ڈائجسٹ اور مخدومی الطاف حسن قریشی کی جرات مندانہ صحافت تھی جس نے ایک غیر متعلق نظریاتی آویزش میں کلمۂ حق بلند کیا۔ یوں قومی صحافت ایک نیا موڑ مڑ گئی۔ دائیں اور بائیں بازو کی آویزش میں تیسرے مکتبۂ فکر کی آواز کو اعتبار ملا۔ استادِ گرامی پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود کہا کرتے ہیں کہ الطاف حسن قریشی اگر اس زمانے میں خم ٹھونک کر کھڑے نہ ہو گئے ہوتے تو حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور پاکستان کا نام لینے والوں کے لیے یہاں قدم رکھنے کی کوئی جگہ نہ رہتی۔

یہ پس منظر الطاف حسن قریشی کے نظریاتی رجحان سے ہمیں آگاہ کرتا ہے۔ یوں معلوم ہو جاتا ہے کہ پاکستان کے نظریاتی لینڈ اسکیپ پر قریشی صاحب کے رشتے کس مکتبِ فکر اور شخصیات کے ساتھ رہے ہوں گے۔

اردو ڈائجسٹ اور الطاف حسن قریشی صاحب کا زمانہ دراصل مولانا مودودیؒ کا زمانہ تھا۔ اس دور کے سب سے بڑے قانون دان خالد ایم اسحق ایڈووکیٹ نے میرے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہمارے زمانے میں مولانا مودودیؒ علم کی بہت بڑی شمع تھے اور ہمارے جیسے پروانے علم کی اس روشنی کے گرد منڈلا رہے تھے۔یہی معاملہ الطاف حسن قریشی صاحب کا بھی تھا۔ قریشی صاحب نے لکھا ہے کہ جب مولانا مودودیؒ کو سزائے موت سنائی گئی تو وہ سخت صدمے کی حالت میں کسی اجاڑ بیابان میں نکل گئے اور گھنٹوں روتے رہے پھر اسی عالم میں ان پر ایک نظم وارد ہوئی جو انھوں نے مولانا مودودیؒ کے ساتھ اپنے تاریخی انٹرویو کے ابتدائیے میں شامل کی ہے۔

قریشی صاحب نے اس انٹرویو کے علاوہ ان کے ساتھ اپنا ایک اور انٹرویو، ان کے انتقال پر اپنا ایک طویل اور نہایت اہم مضمون بہ عنوان ‘پیارے مولانا’ ، مخدومی مجیب الرحمن شامی اور جناب آباد شاہ پوری کے مضامین کے ساتھ اسی عنوان سے کتابی صورت میں شایع کر دیے ہیں جسے علامہ عبد الستار عاصم کے ادارے قلم فانڈیشن نے روایتی اہتمام سے شایع کیا ہے۔

مولانا مودودیؒ کیا تھے، ان کی فکر اور دعوت کیا تھی اور وہ کیا نہیں تھے، ان سب سوالوں کے جواب اس کتاب میں دستیاب ہیں۔ اس مختصر کتاب کے مطالعے کے بغیر مولانا مودودیؒ کو سمجھنا ممکن نہیں۔اسی اہم اور تاریخی کتاب کی تقریب اجرا 5 ؍اے ذیلدار پارک میں ہوئی جسے اب سید مودودیؒ میموریل کا نام دیا گیا ہے۔ اس تقریب کی صدارت امیرِ جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کی۔ اس موقع پر مجیب الرحمن شامی، خواجہ سعد رفیق، امیرالعظیم، محمد حنیف بندہانی ایڈوکیٹ اور سید مودودی ؒمیموریل کے سیکریٹری جنرل سید وقاص جعفری نے خطاب کیا۔

خواجہ سعد رفیق نے اس موقع پر جو تقریر کی، وہ بے پناہ وائرل ہوئی ہے۔یہ تقریر اتنی مقبول کیوں ہوئی، اس کا ایک پس منظر ہے۔ خواجہ صاحب نے مولانا مودودی ؒکو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا اور کہا کہ تحریکِ اسلامی سے وابستہ افراد صرف وہ نہیں جو جماعتِ اسلامی کے نظم میں شامل ہیں بلکہ وہ بھی ہیں جنھوں نے سید مودودیؒ کے لٹریچر کا مطالعہ کیا اور زندگی کے کسی مرحلے میں کسی نہ کسی حیثیت میں ان کے قافلے میں شریک ہوئے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے رفیق رہے ہیں اور اس حیثیت میں وہ خود کو آج بھی تحریکِ اسلامی کا حصہ سمجھتے ہیں اور اس مشن کو آگے بڑھانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔بس، اپروچ اور حکمتِ عملی کا فرق ہے ،اس لیے ہمیں بھی تحریکِ اسلامی کا حصہ سمجھا جائے۔

خواجہ سعد رفیق ایک ٹھیٹھ سیاسی کارکن ہیں جو زمانے کے سرد و گرم سے گزر کر پختہ کار ہو چکے ہیں اور خود اپنے الفاظ میں لوہے کے وہ چنے بن چکے ہیں جنھیں اگلا جا سکتا ہے اور نہ نگلا جا سکتا ہے۔ خواجہ صاحب نے اس مزاج کے سیاسی کارکنوں کی یہ تعریف بھی دراصل سید مودودیؒ ہی سے مستعار لی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سید مودودیؒ اور تحریکِ اسلامی سے اپنے تعلق کی جو بات انھوں نے کہی ہے، وہ ان کی نہایت سوچی سمجھی رائے ہے اور ان کے ما فی الضمیر کی نمایندگی کرتی ہے۔

انھوں نے یہ کہہ کر جو بات کہے بغیر کہنے کی کوشش کی ،یہ تھی کہ اپنے ہمدردوں کو دور دھکیل کر تحریکِ اسلامی کو کمزور کرنے کے بہ جائے اسے زیادہ وسعت کے ساتھ دیکھا اور سمجھا جائے۔ تحریکِ اسلامی ہو یا پاکستان، دونوں کا مفاد اسی میں ہے۔جماعتِ اسلامی گزشتہ کچھ عرصے سے جس سیاسی تنہائی کا شکار ہے اور اس کی عوامی طاقت میں کمی واقع ہو رہی ہے، یہ اس کے لیے کڑا امتحان ہے۔ جماعتِ اسلامی اس آزمائش میں سرخرو ہو سکتی ہے اگر خواجہ سعد رفیق کی تجویز پر توجہ دے اور اپنی حکمتِ عملی ازسرِ نو مرتب کرے۔

بزرگوں کا دم قدم باعثِ برکت ہوتا ہے۔ یہ بابرکت مشورہ ’پیارے مولانا ‘کی اشاعت کے موقع پر سامنے آیا ہے جو پاکستان کا نظریاتی منظرنامہ بدل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس پر مخدومی الطاف حسن قریشی مبارک باد کے مستحق ہیں۔

Similar Posts