سیاست جمہوریت اور آئین کی حکمرانی

پاکستان میں سیاست ،جمہوریت ،آئین اور قانون کی حکمرانی کے تصورات کو اقتدار میںموجود طبقات اپنی سیاسی طاقت کے طور پر بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں ۔یہ روایت نئی نہیں بلکہ ماضی کی سیاسی،قانونی اور آئینی تاریخ اسی بنیادی نقطہ کے گرد گھومتی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری ریاست کا تصور کمزور جمہوریت اور کمزور آئینی حکمرانی کے گرد گھومتا ہے۔

اس وقت بھی پاکستان سیاسی ،جمہوری اور آئینی یا قانونی جدوجہد کے عمل سے گزر رہا ہے کیونکہ اس عمل نے ہمیں ایک کمزور سطح کی ریاست کے طور پرکھڑا کردیا ہے ۔ حکومت کا آئین میں ترمیم کرنا اس کا سیاسی و قانونی حق ہے ۔لیکن جائزہ اس نقطہ پر لیا جاتا ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کی مدد سے جو کچھ ترمیم کرنا چاہتی ہے، اس کی ضرورت کیونکر پیش آرہی ہے اور کیا ترامیم میں جو طور طریقہ اختیار کیا جارہا ہے وہ جمہوری اور آئینی تقاضوں کو کس حد تک پورا کرتا ہے یا یہ عمل سیاست ،جمہوریت ،آئین اور قانون کی حکمرانی پر کیا مثبت اور منفی اثرات ڈالے گا۔اسی بنیاد پر ترامیم اپنی ساکھ کو ریاست کے نظام میں قابل قبول بناتی ہیں۔

یہ امر بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ جو ترامیم کی جارہی ہیں وہ اداروں یا حکومت کو جوابدہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گی اور کیا اسی اصول کی بنیاد پر ترمیم کی جا رہی ہے۔اگر ایسا نہیں تو اس کے پیچھے آئین اور قانون سے زیادہ سیاسی مقاصد کا ہونا لازمی امر ہے اور اس سیاسی مقصد میں بھی حکومتی یا شخصی مفاد کی اہمیت زیادہ ہے۔کیونکہ اگر ترامیم کا عمل ادارہ جاتی نظام کی بہتری کے بجائے عملی سطح پر شخصی افراد کے گرد گھومتا ہے تو اس کا دائرہ انھیں افراد کی طاقت تک محدود ہے۔

حکومت نے اس وقت 27ویں ترمیم کی منظوری کے لیے اپنا سیاسی لنگوٹ کس رکھا ہے ۔وفاقی کابینہ نے اس ترمیمی بل کی منظوری دے دی ہے اور حکومت اور ان کی اتحادی جماعتوں بالخصوص پیپلزپارٹی میں ترمیم مسودہ پر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر گفتگو جاری ہے۔پیپلز پارٹی نے ابتدائی طور پر آرٹیکل 243اور ملک میں آئینی عدالتوں کی تشکیل کی حمایت کا اعلان کیا ہے ۔جب کہ این ایف سی ایوارڈ،18ویں ترمیم میں ترمیم کی مدد سے تعلیم یا صحت سمیت پاپولیشن کے شعبوں کو صوبوں سے وفاق میں منتقل کرنے،ججز ٹرانسفر،دوہری شہریت اور الیکشن کمیشن پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

جب کہ مولانا فضل الرحمن کے بقول اگر آرٹیکل 243میں ترمیم سے سویلین بالادستی ،آئین اور پارلیمنٹ یا جمہوریت پر اس کے منفی اثرات پڑے یا صوبوں کے اختیارات میں کمی کی گئی تو اس کی کھل کر مخالفت کی جائے گی ۔اسی طرح ان کے بقول 26ویں ترمیم کے دست بردار ہونے والے نکات 27ویں ترمیم میں بھی قابل قبول نہیں ہونگے۔

اگرچہ حکومت کا موقف ہے کہ27ویں ترمیم اتفاق رائے سے لائی اور منظور کی جائے گی۔لیکن جو حالات ہیں وہ یہ دکھا رہے ہیں کہ جس طرح سے حکومت نے 26ویں ترمیم کو سیاسی افراتفری اور عجلت میں ارکان اسمبلی کو اعتماد میں نہ لیا اور اس پر کھل کر پارلیمانی یا پارٹی یا میڈیا فورم پر گفتگو سے گریز کیا تھا، وہی حکمت عملی اس وقت 27ویں ترمیم کی منظوری کی صورت میں بھی دیکھی جارہی ہے۔بلکہ حکومت کے سیاسی اور صحافتی پنڈت جو بااثر ہیں ان کے بقول 27ویں ترمیم ہر صورت منظور ہوگی اور اس کی منظوری کے سوا حکومت اور ان کی اتحادی جماعتوں کے پاس کوئی اور آپشن نہیں یا حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔

ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ 26ویں ترمیم کی منظوری کے فوری بعد 27ویں ترمیم کیونکر ضروری ہے ۔فیصل واڈا ایک قدم آگے جاکر کہتے ہیں کہ اس ترمیم کی منظوری کا بڑا ٹاسک حکومت کو دیا گیا ہے اور اس کی منظوری ہر صورت ہونی ہے ۔ ان کے بقول اگر معاملات اس حالیہ 27ویں ترمیم کے تحت بھی پورے نہیں ہوئے تو پھر 28ویں ترمیم کو بھی لایا جاسکتا ہے ۔سوال یہ بنتا ہے کہ اگر یہ ترمیم واقعی حکومت کی ضرورت نہیں تو پھر یہ کس کی ضرورت ہے اور کس نے حکومت کو یہ ٹاسک دیا ہے اور وہ اس ترمیم کی مدد سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

پہلے ہی اس نظام کو ہم جمہوری نظام کے مقابلے میں ہائبرڈ نظام کا نام دے رہے ہیں یا کچھ اسے ہارڈ ریاست کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔اس نظام میں جمہوریت کہاں ہے یا کہاں کھڑی ہے اس پر حکمران طبقہ نہ صرف خاموش ہے بلکہ وہ ہمیں ہائبرڈ نظام کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ بھی کرتے ہیں اور ان کے بقول یہ ہی نظام ہمیں ترقی کی طرف لے کر جاسکتا ہے۔

27ویں ترمیم کے تحت ملک میں آئینی عدالتوں کا قیام،مجسٹریسی نظام کی بحالی ،ججز کے تبادلے میں رضامندی کی شق کا خاتمہ،کمانڈ آف آرمڈ فورس کے آرٹیکل 243 میں تبدیلی ،قومی مالیاتی کمیشن میں ترمیم ، تعلیم، صحت اور آبادی کے نظام کو صوبوں سے وفاق میں منتقلی ،الیکشن کمیشن سے متعلق ڈیڈ لاک کا خاتمہ یا نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری میں موجود رکاوٹ ،فیلڈ مارشل کے آئینی عہدے کو تحفظ دینا یا تاحیات برقرار رکھنا یا کمانڈر ڈیفنس فورسز کا نیا عہدہ، صدر، وزیر اعظم کو استثنیٰ ،از خود نوٹس کا اختیار ختم ،عدالت کا فیصلہ سپریم کورٹ پر بھی لاگو ،نیشنل اسٹرٹیجک کمانڈ کا نیا عہدہ ،جیسے امور شامل ہیں ۔

کہا جارہا ہے کہ اگر 27ویں ترمیم حکومتی ایجنڈے کے تحت منظور ہوجاتی ہے تو اس سے یہ ترامیم آئین کے نمایاں خدوخال کو متاثر کرسکتی ہے۔اس ترمیم کے پیچھے بہت سے قانونی ماہرین کے بقول بنیادی مقصد اس وقت آئین کے آرٹیکل 243میں ترمیم ہے جو مسلح افواج کو کنٹرول اورکمانڈ کے ساتھ ساتھ سروسز چیفس کی تقرری سے متعلق ہے اور اسی طرح عدلیہ کو اپنے ماتحت کرنا یا اس کی آزادانہ حیثیت یا خود مختاری کو کمزور کرنا بھی حکومتی ایجنڈے کا حصہ ہے اور ہر حکومت ہر سطح پر عدالت اور ان کے فیصلوں کی مزاحمت سے خود کو بچانا یا محفوظ کرنا چاہتی ہے۔یعنی اس کا مقصد ایگزیکٹو کو مزید طاقت دینا اور قانونی تحفظ فراہم کرنا مقصود ہے ۔

اصولی طور پر جمہوری نظام میں سب سے اہم بات کسی بھی طرز کی بڑی آئینی ترامیم یا منظوری سے قبل ایک بڑی سیاسی مشاورت کو ممکن بنانا ہوتا ہے ۔یہ کام پارلیمنٹ میں سنجیدہ بحث کا تقاضہ بھی کرتا ہے ۔کیونکہ اگر حکومت یہ کام اپنی عددی برتری پر کرتی ہے اور سب کو اعتماد میں لینے سے گریز کرتی ہے تو اس سے ہونے والی ترامیم عملاً متنازعہ شکل میں سامنے آتی ہے جو ایک بڑی سیاسی اور قانونی تقسیم کے عمل کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے ۔اب بھی 27ویں ترمیم کے پس منظر میں حکومت اور اتحادی جماعتوں پر دباؤ کی سیاست یا اتحادی جماعتوں کی طرف سے اس ترمیم کی حمایت پر سیاسی جوڑ توڑ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے ۔

پیپلزپارٹی پر دباؤ سب سے زیادہ ہے اور 18ویں ترمیم میں مجوزہ ترمیم پر اس کے تحفظات ہیں ۔وہ ان تحفظات کی بنیاد پر اپنی سیاسی طاقت کو ہر صورت بچانا بھی چاہتی ہے اور وہ آزاد کشمیر میں بننے والی نئی حکومت میں اپنا بڑا حصہ بھی دیکھنا چاہتی ہے۔موجودہ حالات میں ترمیم کی منظوری بالخصوص ہائبرڈ یا ہارڈ اسٹیٹ کی موجودگی میں یہ سب کچھ ممکن ہے اور اسی بنیاد پر اس کا سیاسی اسٹیج سجایا گیا ہے۔لیکن دیکھنا ہوگا کہ اس ترمیم کی منظور ی کے بعد یہاں سیاست،جمہوریت ،آئین اور قانون کی حکمرانی کا کیا سیاسی مستقبل ہوگا۔

Similar Posts