فلسطینی بچوں پر اعتبار نہیں ہو سکتا

انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں اور کنونشنز کی ردی کے ڈھیر میں انیس سو نواسی کا اقوامِ متحدہ کنونشن برائے حقوقِ اطفال بھی پایا جاتا ہے۔یعنی اٹھارہ برس سے کم عمر انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا بین الاقوامی ضابطہ۔

کوئی عمل کرے نہ کرے مگر اس کنونشن کے آرٹیکل سینتیس کے مطابق ہر بچے کو فوری قانونی امداد تک رسائی اور گرفتاری کے جواز کو عدالت میں چیلنج کرنے کا ناقابل تنسیخ حق حاصل ہے۔امریکا واحد ملک ہے جس نے اس کنونشن کی توثیق نہیں کی۔ اگرچہ اسرائیل کنونشن کا دستخطی ہے مگر ہر بین الاقوامی قانون اور معاہدے کی طرح کنونشن برائے حقوقِ اطفال کو بھی اسرائیل اپنی ٹھوکر پر رکھتا ہے۔

اسرائیلی جیل سروس ( آئی پی ایس ) کے تیس جون تک کے اعداد و شمار کے مطابق تین سو ساٹھ بچے قید ہیں۔یہ تعداد دو ہزار سولہ کے بعد سے کسی ایک سال میں سب سے زیادہ ہے۔ان میں سے ایک سو سینتالیس بچے ( اکتالیس فیصد ) بنا فردِ جرم و مقدمہ محض انتظامی نظربندی کے کالے فوجی قانون کے تحت قید ہیں۔

یہ قانون انیس سو سڑسٹھ سے صرف مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر لاگو ہے۔ فلسطینیوں کے مقدمات کی سماعت بھی خصوصی فوجی عدالتیں ہی کرتی ہیں۔ایک فلسطینی نژاد اسرائیلی وکیل سحر فرانسس کا کہنا ہے کہ یہ فوجی عدالتیں ہر سال اوسطاً پانچ سو بچوں کو بھی مختلف المیعاد سزائیں سناتی ہیں۔ سزا سنائے جانے کا تناسب ننانوے فیصد ہے جو بذاتِ خود ایک عالمی ریکارڈ ہے ۔

زیادہ تر بچوں پر پتھراؤ کی فردِ جرم عائد کی جاتی ہے۔اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا بیس برس ہے۔بھلے پتھراؤ سے کوئی نقصان نہ بھی ہو تب بھی کم ازکم چھ ماہ یا سال بھر کی سزا ضرور ملتی ہے اور اس میں اکثر وہ دورانیہ شامل نہیں کیا جاتا جو ملزم نے فردِ جرم عائد ہونے سے پہلے قید میں گذارا ہو۔شاید ہی کوئی ایسا بچہ ہو جسے بنا اقبالِ جرم رہائی مل سکے۔البتہ یہودی آبادکار اور ان کے بچے اس فوجی قانون سے مستثنٰی ہیں اور ان کے مقدمات اسرائیل کے سویلین فوجداری قوانین کے تحت سنے جاتے ہیں۔

دو ہزار چودہ میں انتظامی نظربندی کے قانون میں مزید ترمیم کر کے پولیس کو پتھراؤ کرنے والوں پر سیدھی گولی چلانے کا اختیار بھی مل گیا۔اس قانون کے تحت پتھراؤ کو شرپسندی کے زمرے سے نکال کر دھشت گردی کے دائرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ یہودی آبادکاروں کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی دھشت گردی اور عمومی خوف و ہراس پھیلانے کی تعریف کے دائرے میں آ گئے ہیں۔

اسرائیلی پارلیمنٹ ان دنوں ایک قانونی مسودے پر غور کر رہی ہے جس کی منظوری کے بعد سزا یافتہ دھشت گردوں ( فلسطینی ) کو پھانسی دینے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔اگرچہ دورانِ جنگ غداری ، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم پر پھانسی کی سزا دی جا سکتی ہے مگر آخری بار انیس سو باسٹھ میں نازی جنگی مجرم اڈولف آئخمین کی سزاِ موت پر عمل درآمد کیا گیا تھا۔ (بچوں کو سزاِ موت نہیں دی جا سکتی مگر امن و امان کی بحالی کے بہانے سیدھی گولی ضرور مار دی جاتی ہے )۔

قیدی بچوں کی قانونی معاونت کرنے والی ایک مقامی تنظیم ( ڈی سی آئی پی ) سے وابستہ سماجی کارکن عائد ابوعقتیش کا کہنا ہے کہ بالخصوص اکتوبر دو ہزار تئیس کے بعد سے گرفتار ہونے والے بچوں کو الگ رکھنے کے بجائے پہلے سے کھچا کھچ جیلوں میں ٹھونسا جا رہا ہے۔ انھیں بوسیدہ خوراک ملتی ہے اور جیل کے سنتری بات بے بات تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ان بچوں تک خاندان کو رسائی نہیں۔ مقدمات کی سماعت بھی بلا قانونی جواز مسلسل ملتوی ہوتی رہتی ہے۔

زیادہ تر بچے مغربی کنارے کی میگیڈو اور اوفر جیل میں ہیں۔اسرائیل ہر سہہ ماہی میں جو ڈیٹا جاری کرتا ہے اس میں ان بچوں یا بڑوں کی تفصیلات نہیں ہوتی جو ہوارا اور سدِ تیمان کے فوجی کیمپوں یا دیگر فوجی مراکز میں تفتیش کے بہانے رکھے جاتے ہیں۔

ان بچوں سے وکلا کو ملاقات کے لیے مہینوں انتظار کروایا جاتا ہے۔انھیں قیدیوں سے بہت دیر یا تخلیے میں بات کرنے کی ہرگز اجازت نہیں۔گزشتہ دو برس سے ریڈ کراس کے نمایندوں پر بھی جیل میں داخلے پر پابندی ہے۔گویا ہر وہ حربہ استعمال کیا جاتا ہے جس کے ذریعے قیدیوں اور ورثا کے درمیان کوئی بھی براہِ راست یا بلاوسطہ رابطہ ممکن نہ ہو۔

گزشتہ دو برس میں غزہ سے جن بچوں کو حراست میں لیا گیا ان سے اور بالغ قیدیوں سے ناروا سلوک کا فرق قطعاً مٹ چکا ہے۔غزہ کے جو قیدی رہا ہوئے ہیں وہ جیل کے اندر کے حالات معلوم کرنے کا واحد ذریعہ ہیں۔ان میں سے بیشتر کا کہنا ہے کہ بچوں کی مشکیں بھی بڑے قیدیوں کی طرح مسلسل کس کے رکھی جاتی ہیں۔اس عمل کے سبب دورانِ خون متاثر ہوتا ہے لہٰذا بہت سوں کے بازو اور انگلیاں ناکارہ ہو جاتے ہیں۔

بعض کیسوں میں ڈنڈوں کے ذریعے جنسی تشدد کیا جاتا ہے۔بہت سے قیدی جن میں بچے بھی شامل ہیں رہائی کی کچھ مدت بعد دوبارہ حراست میں لے کر وہیں پہنچا دیے گئے جہاں سے رہائی ملی تھی۔

انسانی حقوق کی ایک اسرائیلی تنظیم حاموکڈ کا دعویٰ ہے کہ ہر عمر کے لگ بھگ چار سو فلسطینی گرفتاری کے بعد سے کسی گنتی شمار میں نہیں۔ اسرائیلی ذرایع ان کی تحویل سے انکاری ہیں۔فزیشن فار ہیومین اسرائیل کے ایک وکیل ناجی عباس کا کہنا ہے کہ شاید بہت سے لاپتہ کہے جانے والے افراد دوبارہ کبھی دیکھنے کو نہ ملیں۔سات اکتوبر دو ہزار تئیس سے اب تک دورانِ قید لگ بھگ نوے قیدیوں کی موت کا سرکاری اعتراف تو کر لیا گیا ہے۔

  آپ میں سے اکثر نے ایک فلسطینی بچے کی تصویر ضرور دیکھی ہو گی جو ہاتھ میں پتھر اٹھائے ایک اسرائیلی ٹینک کے سامنے کھڑا ہے۔یہ تصویر فلسطینی مزاحمت کا سب سے مقبول عالمی سمبل ہے۔اسے خبر رساں ایجنسی اے پی کے فوٹوگرافر لارین ریبورس نے اٹھائیس اکتوبر سن دو ہزار میں غزہ میں ایک مظاہرے کے دوران کھینچا تھا۔اس کے گیارہ روز بعد غزہ کی کارنی کراسنگ پر ایک مظاہرے پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ میں ایک گولی اس بچے کی گردن پر لگنے سے وہ شہید ہو گیا۔

اس بچے کا نام فارس اودیہہ ہے۔یہ چوتھائی صدی سے فلسطینی مزاحمت کا پوسٹر بوائے ہے۔فارس کی تدفین میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔صدام حسین نے اس کے خاندان کے لیے دس ہزار ڈالر کا امدادی چیک بھیجا۔فارس کی غلیل رملہ کے سکینی کلچرل سینٹر میں مزاحمتی سمبل کے طور پر رکھی گئی۔

اسرائیل کو تب سے خوف ہے کہ کسی بھی بچے کے اندر سے ایک فارس اودیہہ کبھی بھی باہر نکل سکتا ہے۔لہٰذا ہر فلسطینی ’’ دھشت گرد ‘‘ ہے۔بھلے وہ ماں کے پیٹ میں ہو یا بلوغت کی سرحد پر کھڑا ہو۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

Similar Posts