آئیڈیالوجی کا بحران ختم ہو جائے گا

آوٹ آف سلیبس پر بات کرنے سے پہلے اپنی کم علمی کا اقرار کرتا ہوں، وسیع مطالعہ ہے اور نہ جہاندیدہ ہونے کا دعویدار ہوں۔ تاریخی حقائق پر ریسرچ کی دعویداری اور نہ اپنی رائے دینے کی جسارت کرتا ہوں، ہمیشہ اپنے آپ کو طفل مکتب سمجھ کر سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ متعلقین میں جہاندیدہ محققین، دانشور اور اساتذہ موجود ہوں تو میرے جیسا عام بندہ اگر تحقیق کرکے دانشور بننے کی کوشش کرے گا تو یہ “انگلی کٹوا کر شہدا کی فہرست میں نام لکھوانے کے مترادف اور بے ادبی کے زمرے میں آئے گا”۔ بڑوں اور اساتذہ کے احترام کا قائل ہوں بے ادبی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

میری طرح عام لوگ محققین اور دانشوروں میں سے اپنی دانست کے مطابق قابل بھروسہ حقیقی محقق اور دانشور منتخب کرکے اس کی مان کر کام چلاتے ہیں، نہ صرف اپنے پسندیدہ محقق دانشور کی تحقیق اور دانش سے بھرپور رائے اور پیشگوئیاں اپنے لیے کافی سمجھتے ہیں بلکہ ان کی افسانوی داستانوں کو بھی حقیقت سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ضعیف اعتقاد لوگوں کے اپنے اپنے پسندیدہ نجومی ہوتے ہیں اور آنکھیں بند کرکے (نعوذ باللہ من ذالک) ان کی پیشگوئیاں حرف آخر سمجھتے ہیں۔

میرے بھی ایک پسندیدہ جہاندیدہ دانشور اور محقق تھے جن سے میں بہت متاثر تھا، ان کے کہے اور لکھے کو ہمیشہ درست سمجھتا تھا یہاں تک ان کے افسانوی طرز پر لکھے گئے کچھ واقعات ازبر ہو چکے ہیں۔ آج بھی کہیں موقع ملتا ہے تو دوستوں کی محفلوں میں وہی دھراتا رہتا ہوں۔ یونیورسٹی آف نبراسکا کے تحقیقی ادارے “سنٹر فار افغانستان اینڈ ریجنل اسٹڈیز” کی تحقیق کے حوالے سے جو انکشافات کیے ہیں اس نے مجھ سمیت پوری قوم کو پریشان کردیا ہے، کیونکہ اس تحقیق کے کرشموں کی وجہ سے پاکستانیوں کے ذہن میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ اور بانیان پاکستان کے کھلے ڈھلے، برداشت سے لبالب پاکستان میں مذہب بطور ہتھیار استعمال ہونے لگا، پاکستانیوں کے دلوں سے قائد اعظم نکال کر انھیں صرف کرنسی نوٹوں پر چھپی ان کی تصویر اور سرکاری دفاتر میں ان کی تصاویر آویزاں کرنے تک محدود کرکے ان کو غیر ضروری، مسنگ اور “آؤٹ آف سلیبس” کردیا۔ آوٹ آف سلیبس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں اب آئینی طور پر صرف مسلمان وزیر اعظم، وزیر خارجہ، وزیر قانون، چیف جسٹس اور دوسرے کلیدی عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔

قائداعظم کے پاکستان میں ان اعلیٰ عہدوں پر ہندو، گورے کرسچین اور دیگر اقلیتی لوگ بھی فائز ہوتے رہے ہیں۔ لگتا ہے ان عہدوں پر مسلمانوں کے فائز ہونے پر وہ دکھی ہیں مگر یہ نہیں بتایا کہ یہ جرم کیوں سرزد ہوا کیونکہ یہ سلسلہ تو یونیورسٹی آف نبراسکا کی تحقیق سے بہت پہلے شروع ہو چکا ہے۔ آوٹ آف سلیبس میں کہا گیا کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، راجہ صاحب محمودہ آباد اور سردار عبدالرب نشتر کے عقائد ڈھکے چھپے نہیں ہیں لیکن کسی بریلوی سنی کو ان کے عقیدے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔البتہ انھوں نے مذکورہ بانیان پاکستان کے عقیدے کے بارے میں صراحت سے کچھ نہیں بتایا‘ مجھ سمیت پوری قوم تو ان مذکورہ قائدین کو صرف راسخ العقیدہ مسلمان سمجھتے ہیں اگر ہوسکے تو مذکورہ بانیان پاکستان کے عقیدے کے حوالے سے پیدا کی گئی کنفیوژن کو بھی کھلے ڈھلے الفاظ میں دور کریں اور یہ ضرور بتائیں کہ یہ کنفیوژن بھی یونیورسٹی آف نبراسکا کی تحقیق کے نتیجے میں پیدا ہوئی؟آوٹ آف سلیبس پڑھ کر اندازہ نہیں ہواکہ لاہور میں ایک صحافی کی چرب زبانی سے سینما جلا کر راکھ کرنے کا واقعہ بھی یونیورسٹی آف نبراسکا کا کارنامہ ہے یا یہ جرم قائداعظم کی محبت میں جذباتی پاکستانیوں سے سرزد ہوا تھا۔فرقوں میں فروعی اختلافات تو ہوتے ہیں مگر بنیادی عقائد میں کوئی اختلاف نہیں۔ کافروں کو کافر ثابت کرنے کے لیے قرآن و سنت کافی ہیں اس کے لیے یونیورسٹی آف نبراسکا کی تعلیمات کی ضرورت قطعاً نہیں۔

افغان وزیر خارجہ کے دورہ بھارت اور دارالعلوم دیوبند کے دورے کو بھی یونیورسٹی آف نبراسکا کی تعلیمات کا کمال بتایا گیا اور ساتھ یہ بھی انکشاف کیا کہ بھارتی حکومت کو یونیورسٹی آف نبراسکا کی تحقیق سے پتہ چلا کہ صدیوں سے ان کے ساتھ رہنے والے مسلمان فرقوں میں تقسیم ہیں اور طالبان دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس پر صرف “انا للہ وانا الیہ راجعون” ہی پڑھا جاسکتا ہے۔ نہ صرف یہ بتایا گیا کہ قائداعظم کے پاکستان کو ضیاء الحق کا پاکستان بنایاگیا منافقت، نعرے بازی اور جھوٹ کے ستونوں پر کھڑا معاشرہ معرض وجود میں آنے کو بھی یونیورسٹی آف نبراسکا کی تعلیمات کا اثر بتایا گیا۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہے بھی تو اسے ضیاء الحق کے اسلامک ورژن کا نام نہیں دینا چاہیے تھا۔

بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام دین فطرت اور خاتم النبیین حضرت محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی آخری آسمانی کتاب قرآن مجید فرقان حمید اور نبی رحمت کی احادیث کی روشنی میں عبادات و معاملات کا نام ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پورا پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان 1947 کے اوائل سے پاکستان دشمن قوم پرست علیحدگی پسندوں کے نشانے پر تھے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے مذہب کا لبادہ اوڑھے خوارج اور قوم پرست علیحدگی پسندوں کی اجتماعی دہشتگردی کی ضد میں ہیں۔ یہ انکشاف کیا گیا کہ یونیورسٹی آف نبراسکا کی تعلیمات کے نتیجے میں صرف 2025 میں دہشت گردی کے چار ہزار تین سو 73 واقعات میں 1073 لوگ شہید ہوئے جن میں فوج کے 584 جوان اور افسر‘ باقی اداروں کے 133 اور 356 سویلین ہیں اور یونیورسٹی آف نبراسکا کی تعلیمات کے نتیجے میں صرف 2025 میں افغانستان سے 4373 حملے کیے گئے۔ اگر 1980 کے بعد سب کچھ یونیورسٹی آف نبراسکا کے کھاتے میں ڈالیں تو پھر شہداء کی تعداد 70 ہزار اور زخمیوں کی تعداد کئی لاکھ ہوگی۔

شکر الحمدللہ ریاست پاکستان اور پاکستان کے دفاعی ادارے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو نشان عبرت بنانے کی لمبی تاریخ اور اہلیت رکھتے ہیں ۔ یونیورسٹی آف نبراسکا الٹا لٹکے یا سیدھا انشاء اللہ جب کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان میں شریعت مطہرہ کا نفاذ ہوگا تو آئیڈیالوجی کا بحران بھی ختم ہو گا۔

Similar Posts