وحیدہ رحمان، ایک نامور فنکارہ

بلند پایہ موسیقار نثار بزمی کو لتا کے گائے ہوئے فلم ’’ گائیڈ‘‘ کے دو گیت بہت پسند تھے، یہ بات انھوں نے ایک ملاقات میں بتائی تھی۔

پیا توسے نیناں لاگے رے

اب ہوگا کیا آگے رے

…٭…

موسے جھل کیے جائے سیاں بے ایمان

فلم ’’گائیڈ‘‘ جنھوں نے دیکھی ہے، انھیں اس فلم کے سنگیت نے بہت متاثر کیا ہوگا، اس فلم کے سبھی گانے بہت کلاسک اور اچھے تھے، اس فلم کا ایک اور گانا بھی بڑا زبردست ہے اور اسے بھی لتا ہی نے گایا ہے۔ بول لکھے ہیں شیلندرے اور سنگیت دیا ہے ایس ڈی برمن نے، وہ گیت یہ ہے:

آج پھر جینے کی تمنا ہے

آج پھر مرنے کا ارادہ ہے

لیکن یہ تینوں گیت وحیدہ رحمان پر فلمائے گئے ہیں۔ وحیدہ نے کمال کا رقص کیا ہے اس فلم میں۔ اور یہ فلم اپنی منفرد کہانی اور وحیدہ کے رقص کے باعث سپرہٹ رہی۔

وحیدہ رحمان کا گھرانا روشن خیال اور پڑھا لکھا گھرانا تھا، ان کے والد ترقی پسند تھے اور وشاکا پٹنم میں ڈپٹی کمشنر تھے۔ وحیدہ جو اپنی چار بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی وہ 3 فروری 1938 میں پیدا ہوئی۔ وحیدہ اور ان کی تینوں بہنوں نے بھارت ناٹم اورکلاسیکل ڈانس کی تربیت بھی حاصل کی۔

وحیدہ کو رقص سے بہت دلچسپی تھی اور وہ اس میں اپنا نام بنانا چاہتی تھی۔ وحیدہ اور اس کی بہن سعیدہ نے گورو میناکشی سندرون سے حاصل کی تھی۔ ایک دن یوں ہوا کہ وحیدہ کے والد رحمان صاحب کے پاس اطلاع آئی کہ ہندوستان کے پہلے وائسرائے، اے سی گوپال آچاریہ وشاکا پٹنم کے دورے پر آ رہے ہیں، ان کی پذیرائی کے لیے ایک کلچرل شو پیش کرنا ہوگا۔ اس پروگرام میں رقص و موسیقی کے لیے بڑے بڑے نامی فنکاروں کو بلایا گیا۔ اسی دوران انھیں سی گوپال اچاریہ کا ایک تار ملا جس میں انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ اسٹیج پرفارمنس میں مقامی فنکاروں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ سرکاری عملے میں کھلبلی مچ گئی کہ مقامی کلاکار کہاں سے لائیں۔

اسی بیچ ان کے ایک سینئر نے رحمان صاحب سے کہا کہ ’’ آپ کی لڑکیاں تو بہت اچھی طرح بھارت ناٹیم ڈانس جانتی ہیں، انھیں بلا لیجیے۔‘‘ رحمان صاحب نے کہا کہ ’’ وہ تو ابھی سیکھ رہی ہیں اور وہ پیشہ ور ڈانسر بھی نہیں ہیں۔‘‘ ان کے سینئر نے کہا کہ ’’ وہ ڈانسر تو ہیں ناں، بس انھیں بلا لیجیے۔ اور یہ بھی سوچیے کہ وائسرائے کی بات کو کیونکر ٹالا جائے۔‘‘ اور پھر وقت بھی تو نہیں ہے۔ سو وہ مان گئے اور جب سعیدہ اور وحیدہ نے اپنا رقص پیش کیا تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا، یہ وحیدہ کی پہلی پرفارمنس تھی۔

وحیدہ رحمان کو فلمی دنیا میں متعارف کروانے والے گرودت تھے جو ایک طرح سے اس کے Mentor تھے۔ گرودت نے ملاقات کے بعد اسے بمبئی (ممبئی) آنے کی دعوت دی، یہاں اس کا اسکرین ٹیسٹ ہوا اس میں بھی وہ پاس ہو گئی۔ تب گرودت نے اس سے کہا کہ وہ اپنا نام بدل لے، جیسے مینا کماری، مدھوبالا یا نرگس کی طرح، لیکن وحیدہ اڑ گئی کہ وہ اپنا نام نہیں بدلے گی۔ آخر کو گرودت کو جھکنا پڑا۔ وحیدہ رحمان کی پہلی فلم ’’ سی آئی ڈی‘‘ تھی اسے دیو آنند کے مقابل پیش کیا گیا۔ اس فلم میں اس کا کردار وپمپ کا تھا، لیکن وہ دیو آنند کی زبردست مداح تھی اس لیے اس نے خوشی خوشی یہ فلم سائن کی۔

گرودت پہلی ہی نظر میں وحیدہ کو دل دے بیٹھے تھے، لیکن وہ شادی شدہ تھے اور گیتادت ان کی دھرم پتنی تھی جو خود ایک بڑی پلے بیک سنگر تھی۔ وحیدہ رحمان نے کبھی گرودت کے جذبات کو بڑھاوا نہیں دیا، وہ جانتی تھی کہ ہندو دھرم میں طلاق نہیں ہوتی اور نہ ہی مرد بیک وقت دو شادیاں کر سکتا ہے۔

بہرحال وحیدہ کا فلمی سفر جاری رہا، اسے فلم بینوں نے بہت سراہا۔ گرودت اسے کامیابی کی معراج پر دیکھنا چاہتے تھے، ان کی اگلی فلم ’’پیاسا‘‘ اس فلم میں خود گرودت، مالاسنہا اور وحیدہ رحمان تھے، یہ فلم بھی بہت کامیاب رہی۔ اس فلم میں وحیدہ نے ایک طوائف کا رول کیا تھا۔ یہ رول بہت جاندار تھا، فلم باکس آفس پہ بہت کامیاب رہی۔ گرودت نے اودے شنکر سے ڈانس سیکھا تھا وہ پہلے خود وحیدہ کو ڈانس کرکے دکھاتا، ان دنوں کوئی ایکٹنگ اسکول نہیں ہوتا تھا، بس لوگ خود ہی محنت کرتے یا اپنے سینئر سے سیکھتے، وحیدہ فلم ’ پیاسا‘ میں کام کر کے لاکھوں دلوں کی دھڑکن بن گئی۔ وحیدہ اس وقت بھی سیٹ پر موجود رہتی جب اس کا کوئی سین نہ ہوتا، اس طرح اس میں خود اعتمادی آگئی۔

’’پیاسا‘‘ کی زبردست کامیابی کے بعد وحیدہ کو دھڑا دھڑ فلمیں ملنے لگیں۔ دو ایسی فلمیں تھیں جو پیاسا کے بعد ریلیز ہوئیں۔ ایک ’’سولہواں سال‘‘ اور دوسری “12 O Clock” ۔ ادھر گرودت اپنی نئی فلم کی تیاریوں میں لگے تھے اور وہ رات دن وحیدہ ہی کے بارے میں سوچتے تھے۔

چنانچہ وہ فلم ’’ کاغذ کے پھول‘‘ کی تیاری میں لگ گئے۔ یہ فلم گرودت کی ذاتی زندگی کے گرد گھومتی تھی، اس فلم کا ایک گیت فلم بینوں نے بہت پسند کیا، اسے الگ الگ ابھیجیت بھٹا چاریہ اور لتا نے گایا تھا۔ اس فلم کو آج کلاسک کا درجہ دیا جاتا ہے، لیکن یہ فلم باکس آفس پر زیادہ کامیاب نہیں ہوئی کیونکہ یہ وقت سے پہلے بن گئی تھی۔ یہ اس وقت کی آرٹ مووی تھی اس لیے اگلی صفوں میں بیٹھنے والوں میں اسے زیادہ پذیرائی نہ مل سکی۔ ’’ چودھویں کا چاند‘‘ بھی گرودت کی فلم تھی جس میں ہیروکا رول خود انھوں نے ہی ادا کیا تھا۔ ان کے مقابل ہیروئن تھیں وحیدہ، یہ فلم بلاک بسٹر ثابت ہوئی، اس کے گانے بہت مشہور ہوئے، خاص کر رفیع صاحب کا گایا ہوا یہ گیت:

چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو

جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو

وحیدہ کی شادی شدہ زندگی کی بات کریں تو انھوں نے کمل جیت سنگھ سے شادی کی جن کا اصلی نام ششی ریکھی تھا۔ وہ دل ہی دل میں وحیدہ کو پسند کرتا تھا، شوقیہ فلموں میں آ گیا تھا، لیکن اظہار محبت کی اس میں ہمت نہ تھی کہ وحیدہ ٹاپ کی ہیروئن تھی اس کا اور وحیدہ کا کوئی جوڑ نہ تھا، لہٰذا وہ بددل ہو کر کینیڈا شفٹ ہو گیا۔ اس عرصے میں گرودت نے خودکشی کر لی اور دلیپ صاحب نے اسے کھانے پر انوائٹ کیا، لیکن خود مدراس جا کر سائرہ بانو سے شادی کر لی۔ یہ شادی بھی ایک معمہ ہے کہ کیسے ہوگئی، دونوں کی عمروں میں بائیس سال کا فرق تھا۔ ہدایت کار لقمان نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ ایک دن راجندر کمار کی بیوی دلیپ صاحب کے پاس آئی اور بتایا کہ راجندر کمار اور سائرہ بانو شادی کرنے والے ہیں۔

دلیپ صاحب نے راجندر کمارکی بیوی کو بہن بنا رکھا تھا، اس نے دلیپ صاحب کے ہاتھ پر راکھی بھی باندھی تھی، لہٰذا دلیپ صاحب نے اسے یہ کہہ کر رخصت کیا کہ ایسا نہیں ہوگا اور پھر جھٹ سے نسیم بانو کے پاس سائرہ بانو کا رشتہ بھجوا دیا جسے نسیم بانو اور خود سائرہ بانو نے اپنی خوش قسمتی سمجھا اور یوں یہ شادی ہو گئی۔

ادھر ششی ریکھی کینیڈا سے واپس آیا تو اس نے وقت ضایع کیے بغیر وحیدہ سے اظہار محبت کر دیا اور شادی کی پیش کش کی۔ شادی کے بعد دونوں نے بہت اچھا وقت گزارا، ان کے دو بچے ہوئے ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ ان کی شادی 1974 میں ہوئی لیکن 2000 میں طویل علالت کے بعد ششی ریکھی اس دنیا میں نہ رہے۔ وحیدہ بالکل ٹوٹ گئی، وہ بنگلور چلی گئی لیکن اب وہ ممبئی میں رہتی ہیں۔ ان کی فلموں میں پالکی، بھابھی، خاموشی، شطرنج، دہلی 6، بیس سال بعد، راکھی، کہرا، شگون، کون اپنا کون پرایا، مجبور، صاحب بی بی اور غلام شامل ہیں۔ آج کل وہ کریکٹر رول میں مختلف فلموں میں نظر آتی ہیں۔ وحیدہ رحمان ایسی فنکارہ ہے جس کی مقبولیت کا گراف کبھی نیچے نہیں گرا۔

Similar Posts