تربیت و حقوق اطفال کے اسلامی احکامات

اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو جو رحمت عطا فرمائی اس کا حصہ بچوں نے بھی پایا بلکہ ’’چھوٹے‘‘ ہونے باوجود ’’بڑا‘‘ حصہ پایا۔ انتہائی اختصار و جامعیت سے چند باتیں لکھی جا رہی ہیں تاکہ معلوم ہو کہ ہمیں بچوں کے بارے میں قرآن و سنّت رسول کریم ﷺ سے کیا راہ نمائی ملتی ہے؟

اسلام نے کبھی بھی بھوک و افلاس کے خوف سے بچوں کی پیدائش پر سختی نہیں کی بلکہ قرآن کریم میں ایسا کرنے والوں کی پرزور طریقے سے حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور انسان کو تسلی دی ہے کہ ان کے روزی کے اسباب ضرور اپنائے لیکن روزی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرے، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے احسان کرتے ہوئے ان کی اور ہماری روزی کا ذمہ خود لیا ہے اور اﷲ رب العزت جس بات کو احساناً اپنے ذمہ لے لیں تو اس میں پریشان اور مایوس نہیں ہونا چاہیے۔

ارشاد باری تعالی کا مفہوم:

 ’’اور تم اپنی اولاد کو بھوک کے خوف سے مار مت ڈالو ہم انھیں بھی اور تمھیں بھی رزق دیتے ہیں۔ یقیناً ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘ ( سورۃ الاسراء)

بچوں کی دنیاوی تربیت کے ساتھ مذہبی تربیت کرنا بھی ان کے بنیادی حقوق میں سے ہے اور بچے اس کو جلد قبول کرتے ہیں بہ شرطے کہ انھیں تربیت کا ماحول دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی پیدائش فطرت کے مطابق ہوئی ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے اس کے بعد اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی (وغیرہ) بنا دیتے ہیں۔‘‘ (البخاری)

اس سے معلوم ہوا کہ بچوں کی فطرت اور جبلت میں اسلام موجود ہوتا ہے اگر ان کو اسلامی احکامات و آداب سے رُوشناس کرایا جائے تو وہ اسے جلد قبول کر لیتے ہیں۔ حضرت حسینؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں کلمات اذان اور بائیں کان میں کلمات اقامت کہے اس کی وجہ سے ام الصبیان (یہ ایک بیماری کا نام ہے جس میں بچہ سوکھ کر کانٹا ہو جاتا ہے) نہیں لگے گی۔‘‘ (عمل الیوم واللیلۃ)

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے پاس چھوٹے بچوں کو لایا جاتا آپؐ ان کو برکت کی دعا دیتے اور انھیں گھٹی دیتے تھے۔ (صحیح مسلم)

رسول اﷲ ﷺ نے (بچے کی پیدائش کے) ساتویں دن (اس بچے) کا نام رکھنے، اور اس سے تکلیف دہ چیزوں (بال، ناخن، ختنے کی چمڑی وغیرہ) کو دور کرنے اور عقیقہ کرنے کا حکم دیا ہے۔(جامع الترمذی)

حضرت ابُو وہب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’نبیوں والے نام رکھو اﷲ کو سب سے زیادہ محبوب نام عبداﷲ، عبدالرحمٰن ہیں۔ (سنن ابی داؤد)

حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ عزوجل کے ہاں سب سے محبوب اور پسندیدہ نام عبداﷲ اور عبدالرحمٰن ہیں۔‘‘ (جامع الترمذی)

یہ بات بھی یاد رکھیں کہ نام اچھا ہو، انبیاء کرامؑ، صحابہؓ، صحابیاتؓ اور نیک لوگوں والا نام ہو۔ نام کی اپنی تاثیر ہوتی ہے اس لیے اچھے نام والے میں برکات ہوں گی اور جس کا نام اچھا نہیں ہوگا اس میں برکات بھی نہیں ہوں گی۔ اچھے ناموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں نام وزنی اور بھاری ہے بچہ اس کو اٹھا نہیں سکے گا یا یہ نام رکھنے کی وجہ سے بچہ بیمار رہتا ہے۔ یہ سراسر غلط بات ہے، اچھے نام بالخصوص انبیاء کرامؑ اور صحابہ کرامؓ والے ناموں میں برکت ہوتی ہے جس کی برکات بچے میں بھی منتقل ہوتی ہیں۔ ان ناموں کو وزنی کہنا غلط ہے اور ان کی وجہ سے بچوں کو بیمار بتلانا بھی انتہائی معیوب بات ہے۔

حضرت بریدہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جب ہم میں سے کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو وہ ایک بکری ذبح کرتا اور اس بکری کے خون کو بچے کے سر پر مَلتا اس کے بعد جب اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی دولت سے نوازا تو ہم ایک بکری ذبح کرتے اور بچے کے سر کو مونڈاتے ہیں اور اس پر زعفران مل دیتے ہیں۔ (سنن ابی داؤد)

قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ’’اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں یہ (دودھ پلانے والا حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے۔‘‘ ( سورۃ البقرۃ)

حضرت ا بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’بچوں کو سب سے پہلے کلمہ (لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ) سکھلاؤ۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی)

حضرت وہب بن کیسانؒ سے مروی ہے کہ میں نے عمر بن ابی سلمہؓ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں آپ ﷺ کی زیر تربیت تھا (ایک دن میں آپ ﷺ کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا) اور میرا ہاتھ سالن والے برتن میں گھوم رہا تھا (جیسا کہ عام طور پر بچوں کی عادت ہوتی ہے اپنے سامنے سے بھی کھاتے ہیں اور دوسروں کے سامنے سے بھی چیزیں اٹھا لیتے ہیں) تو مجھے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اے بچے! بسم اﷲ پڑھو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔ (صحیح البخاری)

اس حدیث مبارک میں تین باتیں سکھائی جا رہی ہیں کہ کھانا شروع کرتے وقت بسم اﷲ پڑھنی چاہیے، دائیں ہاتھ سے کھانا چاہیے اور اپنے سامنے سے کھانا چاہیے۔

ابُو رافع بن عمرو الغفاری رضی اﷲ عنہ کے چچا سے مروی ہے کہ جب میں بچہ تھا ان دنوں میں انصار کی کھجور توڑ رہا تھا مجھے نبی کریم ﷺ کے پاس لایا گیا تو آپ ﷺ نے مجھے فرمایا: اے بچے! تم (بغیر اجازت) کیوں کھجور توڑ رہے تھے؟ تو میں نے کہا کہ اپنے کھانے کے لیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (کسی کی کھجور) مت توڑو۔ ہاں! جو نیچے گری ہوئی ہیں ان کو کھا لو۔ پھر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے یہ دعا دی: اے اﷲ! اس کے پیٹ کو سیر کر دے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی)

حضرت عمرو بن شعیبؓ اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب اولاد سات سال کی ہو جائے تو ان کو نماز پڑھنے کا کہو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں پھر بھی نماز نہ پڑھیں تو ان کو مارو اور ان کے بستر بھی الگ الگ کردو۔‘‘

 (سنن ابی داؤد)

حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اﷲ ﷺ کے پیچھے تھا تو آپ ﷺ نے مجھے فرمایا: اے بچے! میں تجھے چند (عقیدے کی) باتیں سکھلاتا ہوں: اﷲ کے دین کے احکام کی حفاظت کر اﷲ تیری حفاظت کرے گا۔ اﷲ کے احکام کی حفاظت کر تو اسے اپنا مددگار پائے گا جب تو مانگے تو اﷲ ہی سے مانگ اور جب تجھے مدد کی ضرورت ہو تو اﷲ سے مانگ اور اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلے کہ اگر سارے لوگ مل کر تجھے نفع دینا چاہیں تو وہ تجھے نہیں دے سکتے جتنا اﷲ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے اور اگر سارے لوگ اکٹھے ہوجائیں اور تجھے نقصان پہنچانا چاہیں تو نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر جتنا اﷲ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے، تقدیر لکھنی والی قلموں کو اٹھا لیا گیا اور صحائف خشک ہوچکے ہیں۔ (جامع الترمذی)

حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:

’’گھر میں کوڑا اس طرح لٹکاؤ کہ وہ اسے دیکھتے رہیں یہ ان کو ادب سکھلانے کے لیے ہے۔‘‘

 (یعنی کہ سرزنش بھی ہو سکتی ہے)

 (المعجم الکبیر للطبرانی)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ چیزیں دینے میں اپنی اولاد میں برابری کا معاملہ کرو۔ (صحیح البخاری)

حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم:

’’اپنے آپ پر بددعا نہ کرو، نہ اپنی اولاد کو بددعا دو اور نہ ہی اپنے خدمت کرنے والوں کو بددعا دو اور نہ اپنے مالوں پر بددعا کرو بعض اوقات اﷲ کی طرف سے قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے تو وہ بددعائیں قبول ہو جاتی ہیں۔‘‘ (سنن ابی داؤد)

بعض لوگوں جن میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے معمولی باتوں پر بچوں کو بددعائیں دیتی ہیں، انھیں اس حدیث مبارک سے سبق لینا چاہیے۔

اﷲ تعالیٰ ہمارے بچوں کو بلکہ ہماری نسلوں کو ایک اچھا مسلمان اور ایک اچھا شہری بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

Similar Posts