یہی وجہ ہے وہ ایک ایسا چہرہ بن گئے جو کبھی مکمل طور پر دنیا کے سامنے نہیں آیا مگر جن کی آواز، لہجہ اور گونجتے الفاظ نے عالمی میڈیا، اسرائیلی اور فلسطینی عوام سب کو متاثر کیا۔
ایک نام، ایک علامت
ابو عبیدہ دراصل اصل نام نہیں بلکہ ایک عرفی شناخت ہے، جو اسلامی تاریخ کی معروف شخصیت حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ سے منسوب ہے۔
یہی نسبت انھیں حماس کے حامیوں میں ایک علامتی حیثیت دیتی ہے ایک ایسا کردار جو صرف ترجمان نہیں بلکہ مزاحمت کی نمائندگی بن چکا ہے۔
حماس نے تصدیق کی ہے کہ ابو عبیدہ کا اصل نام حذیفہ الکحلوت تھا۔ جو کئی برسوں تک القسام بریگیڈز کے ترجمان کے طور پر سامنے آئے اور غزہ میں حماس کی جانب سے سب سے نمایاں اور بااثر آواز سمجھے جاتے تھے۔
سرخ کوفیہ اور خاموش چہرہ
ابو عبیدہ ہمیشہ ویڈیو پیغامات میں سرخ فلسطینی کوفیہ سے چہرہ ڈھانپے دکھائی دیتے ہیں۔ پس منظر میں قرآن کی آیات، سادہ سی اسکرین اور ایک مضبوط آواز، بس یہی ان کی پہچان ہے۔
یہ انداز نہ صرف ان کی شناخت کو راز میں رکھتا ہے بلکہ انہیں ایک علامتی اور پراسرار شخصیت بنا دیتا ہے۔
میڈیا کی جنگ کا سپاہی
جہاں میدانِ جنگ میں ہتھیار استعمال ہوتے ہیں، وہیں ابو عبیدہ الفاظ اور بیانیے کی جنگ لڑتے رہے۔
ان کے بیانات حماس کی عسکری کارروائیوں کی تفصیلات، جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے دعوے، اسرائیلی قیدیوں اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے پر مشتمل ہوتے تھے۔
یہ سب پیغامات ایک منظم پیغام کے تحت متواتر سامنے آتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں بعض مبصرین “حماس کی میڈیا مشین” بھی کہتے ہیں۔
پس منظر میں چھپا ہوا سفر
عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق ابو عبیدہ کو پہلی بار 2002 کے بعد القسام بریگیڈز کے فیلڈ ڈھانچے میں پہچانا گیا۔
2006 میں انہیں باضابطہ طور پر القسام بریگیڈز کا ترجمان مقرر کیا گیا، اور اسی سال ایک اسرائیلی فوجی چوکی پر حملے کے بعد وہ پہلی مرتبہ عالمی سطح پر منظرِ عام پر آئے۔
اسی کارروائی میں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو گرفتار کیا گیا تھا، جس کی رہائی برسوں بعد ایک بڑے قیدی تبادلے کے معاہدے کے ذریعے ممکن ہوئی۔
شناخت کا معمہ
ابو عبیدہ کی اصل شناخت طویل عرصے تک راز رہی۔ اسرائیلی فوج نے 2023 میں دعویٰ کیا کہ ان کا اصل نام حذیفہ سمیر عبداللہ الکہلوت ہے جس کی حماس نے اب تصدیق کی ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق وہ غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ تھے۔ جہاں انھوں نے مذہبی علوم میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور تحقیق و تدریس سے بھی وابستہ رہے۔
بار بار نشانہ
اسائیلی رپورٹس کے مطابق مختلف ادوار میں اسرائیلی فضائی حملوں کے دوران ان کے گھروں کو متعدد بار نشانہ بنایا گیا، مگر وہ ہر بار منظر سے غائب ہی رہے اور ہمیشہ محفوظ رہے۔
ایک کردار، جو تاریخ کا حصہ بن گیا
چاہے انھیں ایک ترجمان سمجھا جائے، ایک علامت یا ایک حکمتِ عملی کا حصہ تھے، ابو عبیدہ نے یہ ثابت کر دیا کہ جدید تنازعات میں میڈیا اور بیانیہ بھی ہتھیار بن چکے ہیں۔
وہ شخص جس کا چہرہ دنیا نے واضح نہیں دیکھا، مگر جس کا نام مشرقِ وسطیٰ کی حالیہ تاریخ میں ہمیشہ زیرِ بحث رہے گا۔