ایک طوطے کی رجسٹریشن فیس سالانہ ایک ہزار روپے فیس ادا کرنا ہوگی۔ وائلدلائف رینجر پنجاب کے اس نئے اقدام نے نہ صرف پرندوں کے شوقین افراد کو چونکا دیا ہے بلکہ بہت سے گھریلو مالکان اسے اپنے پالتو دوستوں کے تحفظ کی ایک نئی صورت بھی قرار دے رہے ہیں۔
لاہور کی رہائشی طالبہ زینب خان کئی برسوں سے ایک روز رنگڈ طوطا پال رہی ہیں۔ وہ اسے پیار سے میاں مٹھو کہتی ہیں اور روزانہ اس کے ساتھ باتیں کرتی ہیں۔نئی پالیسی سامنے آنے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ گھر سے جنگلی پرندوں کو اٹھانے کی کارروائیوں کے باعث وہ خوفزدہ رہتی تھیں، مگر اب انہیں اطمینان ہے کہ رجسٹریشن کے بعد ان کا پرندہ محفوظ تصور ہوگا۔
نسیم اختر نامی بزرگ خاتون بھی اپنے چار پانچ طوطوں کو بچوں کی طرح پالتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اُن کے طوطے انہیں اماں جی کہہ کر پکارتے ہیں اور خاندان کا حصہ بن چکے ہیں۔ نوجوان ارباز خان نے بھی اپنے گھر میں فینسی پرندوں کے ساتھ میکاؤ اور روز رنگڈ طوطے رکھے ہوئے ہیں، اور ان کے مطابق شوق تو برسوں پرانا ہے، لیکن اب اس کے قواعد بدل چکے ہیں۔
برصغیر کی ثقافت میں طوطا ہمیشہ ایک نمایاں علامت رہا ہے۔ پاکستان میں اس کی کئی نسلیں پائی جاتی ہیں، جن میں الیگزینڈرین، روز رنگڈ، سلیٹی سروالا اور گلابی سروالا زیادہ عام ہیں، اور گھروں میں سب سے زیادہ روز رنگڈ طوطے رکھے جاتے ہیں۔
مگر پنجاب وائلڈلائف کے مطابق ان اقسام کی جنگلی آبادی تیزی سے کم ہورہی ہے، جس کے باعث اب کیپٹوٹی میں رکھے گئے تمام طوطوں کی باقاعدہ رجسٹریشن شروع کی گئی ہے۔ محکمے کی موبائل ایپ کے ذریعے رجسٹریشن ممکن ہے، تاہم بہت سے شہری ایپ کو مشکل قرار دے رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ دستی رجسٹریشن بھی متعارف کرائی جائے۔
ایڈیشنل چیف وائلڈلائف رینجر سید کامران بخاری کے مطابق اس پالیسی کا مقصد بنیادی مسائل کو حل کرنا ہے۔ اول، یہ معلوم ہو سکے گا کہ پنجاب میں گھروں میں کتنے طوطے رکھے جاتے ہیں۔ دوم، جنگل سے طوطے پکڑنے کے رجحان میں نمایاں کمی آئے گی۔
ان کے مطابق منظوری کے بعد ہر طوطے کا معائنہ ہوگا اور اسے شناخت کے لیے ایک رنگ پہنایا جائے گا۔ مستقبل میں گھریلو سطح پر طوطے رکھنے والوں کو لائسنس یافتہ بریڈر یا ڈیلر کے طور پر بھی رجسٹر ہونا پڑے گا، جبکہ خرید و فروخت صرف رجسٹرڈ ڈیلرز کے ذریعے ہوسکے گی۔
پنجاب وائلڈلائف حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں میں ایک ہزار سے زیادہ افراد اپنے طوطوں کی رجسٹریشن کے لیے درخواست دے چکے ہیں۔
دوسری طرف، صوبے میں کالاتیتر رکھنے کے نئے لائسنس تاحال بند ہیں اور پرانے لائسنس بھی برسوں سے تجدید کے منتظر ہیں۔ ممکن ہے کہ آئندہ تیتر کے لیے بھی طوطوں کی طرح ہی کوئی باقاعدہ نظام بنایا جائے، مگر فی الحال ایسا کوئی منصوبہ موجود نہیں۔
جنگلات اور جنگلی حیات کے ماہر بدر منیر کے مطابق اسکندری طوطا، جو کبھی پنجاب، کشمیر، خیبر پختونخوا اور سندھ کے کئی علاقوں میں عام پایا جاتا تھا، تیزی سے غائب ہورہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صنعتی پھیلاؤ، درختوں کی کمی، کیمیائی ادویات کا استعمال اور جنگلی حیات کی اسمگلنگ اس نسل کے مستقبل کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آنے والی نسلیں فضا میں اس خوبصورت پرندے کی پرواز دیکھنے سے محروم ہوسکتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق قدرتی ماحول میں اسکندری طوطا سال میں دو بار انڈے دیتا ہے اور اوسطاً دس بچے نکلتے ہیں، جبکہ گھریلو ماحول میں بہتر خوراک اور دیکھ بھال کے باعث یہ تعداد سالانہ پندرہ تک پہنچ جاتی ہے۔بین الاقوامی منڈی میں اس طوطے کے ایک جوڑے کی قیمت دس لاکھ روپے تک بتائی جاتی ہے۔
پاکستان میں بھی یہ پرندہ پالتو کے طور پر مقبول ہے اور مارکیٹ میں 25 سے 40 ہزار روپے فی جوڑا فروخت ہوتا ہے، جس کے باعث اس کی اسمگلنگ ایک منافع بخش غیرقانونی کاروبار بن چکی ہے۔