برطانیہ نے جدید دور کی سب سے بڑی پناہ گزین پالیسی اصلاحات کا اعلان کر دیا

یورپ میں ہجرت کا مسئلہ اب محض نقل مکانی کا معاملہ نہیں رہا؛ یہ سیاسی سمت، سماجی برداشت اور انسانی اقدار کی آزمائش بن چکا ہے۔ برطانیہ کی تازہ ترین پالیسی تبدیلیاں اسی وسیع تر پس منظر کا حصہ ہیں، جہاں حکومتیں بڑھتے ہوئے دباؤ اور عوامی بے چینی کے درمیان نئے راستے تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

رائٹرز کے مطابق برطانیہ کی لیبر حکومت نے ملک کی پناہ گزین اور مہاجرین سے متعلق پالیسی میں تاريخ کی سب سے بڑی تبدیلیاں متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات ڈنمارک سمیت یورپ کے کئی ممالک کے سخت ماڈلز سے متاثر ہیں، جن میں عارضی رہائش، مشروط امداد اور لازمی انضمام جیسے اصول شامل ہیں۔

یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب فرانس کے شمالی ساحل سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے برطانیہ آنے کی کوشش کرنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ رہی ہے اور پوپلِسٹ ریفارم یوکے پارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت لیبر حکومت پر مزید دباؤ ڈال رہی ہے۔

حکومتی معاونت میں بڑی تبدیلیاں

وزارتِ داخلہ کے مطابق نئی پالیسی کے تحت ایسے تمام پناہ گزین جن کے پاس کام کرنے کی صلاحیت ہے لیکن وہ کام نہیں کرتے، یا جو قانون شکنی کے مرتکب ہوں، انہیں رہائش اور مالی امداد کی سرکاری ضمانت سے محروم کردیا جائے گا۔ وزیر داخلہ شبانہ محمود کا کہنا ہے کہ حکومتی وسائل ان افراد کیلئے مختص ہونے چاہئیں جو معاشی سرگرمیوں اور مقامی کمیونٹیز میں مثبت کردار ادا کریں۔

برطانیہ کا طلبہ اور ورک ویزا ہولڈرز کیلئے ویزا سسٹم میں بڑی تبدیلی کا اعلان

انہوں نے کہا کہ برطانیہ ہمیشہ سے خطرات سے بھاگ کر آنے والوں کو خوش آمدید کہتا رہا ہے، مگر غیر قانونی کشتیوں کی بڑھتی ہوئی آمد ملک میں دباؤ بڑھا رہی ہے۔

تنقید اور خدشات

دوسری جانب سو سے زائد برطانوی فلاحی اداروں نے مشترکہ خط میں حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پالیسی میں سختی ’مہاجرین کو قربانی کا بکرا بنانے‘ کے مترادف ہے اور اس سے معاشرے میں نسل پرستی اور تشدد میں اضافہ ہوگا۔

اعداد و شمار اور بڑھتی ہوئی تشویش

مالی سال مارچ 2025 تک کے اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں پناہ گزین درخواستوں کی تعداد 17 فیصد اضافے کے ساتھ 109,343 تک پہنچ گئی، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ ہیں اور 2002 کے ریکارڈ 103,081 سے بھی تقریباً 6 فیصد زائد ہے۔

ڈنمارک کے سخت پناہ گزین قوانین: برطانیہ میں اپنانے کی تیاری

وزارتِ داخلہ کے مطابق اصلاحات کا ڈھانچہ نہ صرف ڈنمارک بلکہ یورپ کے دیگر ممالک کی سخت پالیسیوں سے متاثر ہے، جہاں پناہ کا درجہ عارضی ہوتا ہے، مالی امداد شرائط سے مشروط ہوتی ہے، اور پناہ گزینوں سے مقامی سماج میں شمولیت کی توقع کی جاتی ہے۔

پناہ کیلئے برطانیہ آنیوالوں کو روانڈا بھیجنے کا منصوبہ کیا ہے

ڈنمارک میں رہائش عام طور پر دو سال کیلئے دی جاتی ہے اور حالات بہتر ہونے پر مہاجرین کو واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ خاندان کے ملاپ اور شہریت کے قوانین کو بھی مزید سخت کیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ 2016 کے قانون کے تحت قیمتی اشیاء ضبط کرنے کی اجازت بھی موجود ہے۔

برطانیہ میں اس وقت پناہ ملنے کی صورت میں پانچ سالہ رہائشی حق دیا جاتا ہے، جس کے بعد مستقل رہائش کیلئے درخواست دی جا سکتی ہے۔


AAJ News Whatsapp

انسانی حقوق تنظیموں کا کہنا ہے کہ ڈنمارک جیسے ماڈلز پناہ گزینوں کو غیر یقینی صورتحال میں مبتلا رکھتے ہیں اور تحفظ کے عالمی اصولوں کو کمزور کرتے ہیں۔ برطانیہ کی ریفیوجی کونسل نے کہا کہ مہاجرین کبھی بھی مختلف ممالک کے قوانین کا موازنہ کرکے راستے کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ وہ خاندان، زبان اور موجود رابطوں کی بنیاد پر برطانیہ آتے ہیں۔

یورپ میں بدلتا ہوا منظرنامہ

مہاجرین مخالف جذبات صرف برطانیہ تک محدود نہیں۔ 2015 اور 2016 میں بحیرۂ روم کے راستے آنے والے دس لاکھ سے زائد افراد کے بعد سے یورپ بھر میں اسی نوعیت کی سوچ پھیل رہی ہے، جہاں حکومتیں نئے مہاجرین کی آمد کم کرنے اور واپسی کے عمل کو تیز کرنے پر زور دے رہی ہیں۔

Similar Posts