بھارتی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ دہلی میں لال قلعہ کے قریب 10 نومبر کو ہونے والے مہلک دھماکے میں دنیا کے سب سے خطرناک اور غیر مستحکم دھماکا خیز مواد ”مدر آف سیٹن“ (شیطان کی ماں) استعمال ہوا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق، پولیس نے ابتدا میں دعویٰ کیا تھا کہ گاڑی میں امونیم نائٹریٹ تھا، جو ایک نسبتاً عام دھماکا خیز کیمیکل ہے۔ مگر اب اچانک دعویٰ کیا گیا ہے کہ دھماکا شاید ٹرائی ایسیٹون ٹرائی پرآکسائیڈ (ٹی اے ٹی پی) سے ہوا۔ جو کہ انتہائی حساس ہے اور درجہ حرارت میں معمولی تبدیلی سے بھی پھٹ سکتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اگر اتنا حساس مواد گاڑی میں تھا تو وہ پرہجوم علاقے میں کئی گھنٹوں تک بغیر پھٹے کیسے چلتی رہی؟ یہ سوال بھارتی پلاننگ کی غلطیوں یا کسی اندرونی ڈرامے کا اشارہ بھی ہو سکتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے پولیس اسٹیشن میں دھماکا، 9 افراد ہلاک اور 30 سے زائد زخمی
بھارت کی مشکوک کہانی کیا کہتی ہے؟
بھارتی تفتیش کاروں کے مطابق گاڑی چلانے والا عمر محمد نامی شخص تھا، جسے بھارت نے پہلے ہی پاکستان سے جوڑ کر اپنی پرانی کہانی دہرانے کی کوشش کی ہے۔
امریکا کی بھارت کو دہلی دھماکے کی تحقیقات میں مدد کی پیشکش
بھارتی تحقیقاتی اداروں کے کئی دعوے خود ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ٹی اے ٹی ٹی پی استعمال ہوا تھا، تو گاڑی چند منٹ بھی محفوظ نہیں رہ سکتی تھی۔ اگر ملزمان کے پاس 3 ہزار کلو دھماکا خیز مواد تھا، تو دہلی جیسے ہائی الرٹ شہر میں اتنی بڑی مقدار کیسے منتقل ہوئی؟ اگر یہ منظم دہشت گردی تھی، تو دھماکے کے وقت کوئی بھی واضح ٹارگٹ کیوں موجود نہیں تھا؟
’مدر آف سیٹن‘ کیا ہے؟
ٹی اے ٹی پی دنیا کا سب سے غیر مستحکم دھماکا خیز مواد ہے۔ یہ گھریلو کیمیکلز سے بنتا ضرور ہے مگر تجربہ کار ماہرین بھی اسے ہینڈل کرنے سے گھبراتے ہیں۔ یہ معمولی گرمی، ہلکی رگڑ یا کسی جھٹکے سے بھی پھٹ سکتا ہے۔ ایسا مواد گاڑی میں گھومتا پھرتا رہے اور دھماکہ صرف ایک مخصوص مقام پر ہو یہ بات حقیقت میں ممکن نہیں لگتی۔