عرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کرہ ارض پر جس ملک میں بھی مسلمان اکثریت میں بستے ہیں اور حکمرانی کر رہے ہیں، وہاں انسانی حقوق ‘ جمہوریت اورقانون کی حکمرانی ختم ہو جاتی ہے۔حکمران امیر اور عوام غریب ‘ یہ حکمرانی کا وہ ماڈل ہے جو پچاس سے زیادہ مسلم ریاستوں میں جاری و ساری ہے ۔ اور اس طرز حکمرانی میں تبدیلی لانا ناممکن نظر آ رہا ہے۔ سوڈان کی صورت حال بدامنی کا شکار اکثر مسلمان ممالک سے زیادہ بدتر ہے ۔
1989میں عمر البشیر نے سوڈان کی حکومت پر قبضہ کیا ۔ تین دہائیاں سیاہ و سفید کا مالک رہا ۔ وہ اور اس کا خاندان دولت کے انبار اکٹھے کرتا رہا ۔ مگر عام سوڈانی غربت کی دلدل میں دھنستا رہا۔ عمرالبشیر اور اس کے خاندان نے سوڈان کو کتنا نقصان پہنچایا، اس کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ پھر وہی ہوا جو اس طرز حکومت کا منطقی انجام ہوتا ہے۔ 2019 میں فوج نے صدر عمرحسن البشیر کے خلاف بغاوت کر دی اور وہ اقتدار سے محروم ہو گیا۔جمہوریت کا ڈول ڈالا گیا ۔ عوام کے مسائل پر توجہ دینے کی ادھوری سی کوشش ہوئی ۔ مگر اس کو چلنے نہیں دیا گیا۔ 2021میں سوڈان اسی جگہ پہنچ گیا جہاں وہ بتیس سال پہلے تھا۔
یہ انقلاب دو جرنیل لے کر آئے تھے۔ جنرل عبدالفتح البرہان فوج کا سربراہ تھا ۔ فوری طورپر ملک کا صدر بن گیا۔ اس کا دست راست جنرل محمد ہمدان بھی حکومت میں شامل ہو گیا۔
لیکن آہستہ آہستہ اختلاف رنگ دکھانے لگا۔ تنازعہ کی بنیادی وجہ دولت کا ارتکاز اور ایک لاکھ آر ایس ایف کے سپاہیوں کو فوج میں شامل کرنا تھا۔ جو جنرل ہمدان کے وفادار تھے۔ اصل مسئلہ وہی ہے جو صدیوں سے جاری و ساری ہے کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ پندرہ اپریل 2023 کو دونوں عمائدین کے وفادار سپاہیوں نے جنگ شروع کی۔ آر ایس ایف اور ریاستی فوج کی لڑائی آج بھی خون بہا رہی ہے۔ کبھی ایک شہر آر ایس ایف کے قبضے میں چلا جاتا ہے اور کبھی اسی شہر پر ریاستی فوج قبضہ کر لیتی ہے ۔
مگر یہاں ایک اہم ترین نقطہ سامنے لانے کی ضرورت ہے ۔ سوڈان میں سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق سوڈان سونے کے ذخائر رکھنے والا سولہواں بڑا ملک ہے۔اور یہی فساد کی جڑ ہے ۔ ہر حکمران گروہ سونے کے ذخائر پر قابض ہونا چاہتا ہے اور اس کے لیے بین الاقوامی کمپنیوں اور ملکوں کی مدد لی جاتی ہے۔ گیارہ سو ٹن سونے کے ذخائر نے پورے ملک کو خون میں نہلا دیا ہے۔
کیا آپ یہ نہیں پوچھیں گے کہ ان متحارب گروہوں کے پاس اسلحہ کہاں سے آتا ہے؟ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق یہ مہلک اسلحہ روس ‘ چین ‘ ترکی ‘ یمن ‘ سربیااور متحدہ عرب امارات کے ذریعے ان گروہوں تک پہنچتا ہے۔ سوڈان سے سونا اسمگل ہو کر خلیجی ملک پہنچتا ہے ۔ یہاں دنیا میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ انٹر نیشنل ریسکیو کمیٹی کے مطابق چالیس لاکھ سوڈانی شہری ہمسایہ ممالک میں پناہ لے چکے ہیں۔ ڈھائی کروڑ سوڈانی ‘ غذا سے محروم ہیںاور قحط میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
ڈیڑھ کروڑ افراد بے گھر اور بے سرو سامان ہو چکے ہیں۔ ان کے پاس کسی قسم کی کوئی چھت نہیں ۔ ہزاروں خواتین اور بچوں کوجنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ڈھائی سے آٹھ لاکھ تک عام شہری مارے جاچکے ہیں ، شہر کے شہر تباہ ہو چکے ہیں۔ اسپتالوں اور کلینکس پر بھی فضائی حملے کیے گئے ہیں۔ پورا ملک ایک قبرستان کی شکل اختیار کر چکا ہے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق امداد فراہم کرنے والی مختلف ایجنسیوں نے غذا مفت مہیا کرنے کے لیے جو کچن بنائے تھے ، ان میں سے گیارہ سو باورچی خانے بند کر دیے گئے ہیں۔ انسانی المیہ کی یہ شکل دنیا کے سامنے ہے ۔ مگر کوئی بھی اس پر توجہ نہیں دیتا۔
متحارب عسکری گروہ مسلمان ہیں۔قتل ہونے والے عام شہری ‘ بچے اور خواتین بھی مسلمان ہیں۔ مگر کوئی بھی اسلامی ملک اس جنگ کو بند کرانے میں سنجیدہ نظر نہیں آتا۔ ایسے لگتا ہے کہ کسی کو پرواہ ہی نہیں ۔ غزہ میں ساٹھ ستر ہزار مسلمان اسرائیلی بربریت کا نشانہ بنے تھے اور دنیا کی ہر قوم اور ملک نے کسی نہ کسی طریقے سے اس میں مثبت یا منفی اعلانات کیے تھے۔ پر بدقسمتی سے کسی بھی مسلمان ملک کے حکمرانوں کا ضمیر سوڈان کی ہولناک سول وار کی وجہ سے نہیں جاگ سکا۔ ایسے لگتا ہے کہ کچھ ہو ہی نہیں رہا۔ اب میں ایک تلخ سوال کرنا چاہتا ہوں۔ہمارے مذہبی حلقے ہر دم ‘ لفاظی کی حد تک فلسطین کا ذکر ضرور کرتے ہیں ۔
مسلم امہ کی یکجہتی کی دعائیں بھی مانگتے ہیں ۔ کشمیر میں مسلمانوں کی زبوں حالی پر سینہ کوبی کرتے ہیں مگر سوڈان میں مسلمانوں کے باہمی قتل وعام پر ایک لفظ ادا نہیں کرتے۔ پاکستانی حکمرانوں کا ذکر کرنا تو عبث ہے اس لیے کہ دنیا کاکوئی طاقتور ملک انھیں سنجیدہ نہیں لیتا ہے ۔
ایسے بھی لگتا ہے کہ مذہبی جماعتیں ‘ جس مسلم امہ کا رو رو کر ذکر کرتی ہیں ، وہ طویل عرصے سے ختم ہو چکی ہیں۔کیا آپ نے کسی پاکستانی یا مسلم حکمران کا سوڈان میں قتل عام کے حوالے سے کوئی بیان سنا ہے ۔ مجھے طالب علم کے طور پر جمہوریت یا کسی بھی دیگر نظام میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ صرف اور صرف ایک عنصر اہم ہے اور وہ عام آدمی کی فلاح و بہبود کا ۔جو کم از کم ہمارے ملک میں دور دور تک دوربین لگا کر بھی نظر نہیں آتا۔ ہماری اپنی معاشی ‘ سماجی ‘ سیاسی اور اقتصادی صورت حال اس قدر ابتر ہے کہ اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے ۔ حکومتی جھوٹ اس قدر زیادہ بولا جا رہا ہے کہ ہر ذی شعور دنگ رہ جاتا ہے۔ پچیس کروڑ لوگوں پر مشتمل یہ ملک ‘ کیا سوڈان کی طرح کسی خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے؟ اس کے سوا مطلق کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
سوڈان میں طاقتور حکمران گروہوں نے ملکی ذخائر پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ ملک کو لاشوں اور خون سے بھردیا گیا ہے۔ ایک دولت مند ملک کس طرح ختم ہوا ہے‘ اس کی سب سے تازہ مثال سوڈان ہے۔
اگر ہم سوڈان کی خانہ جنگی ‘ سونے کے ذخائر اور قتل عام کو دیکھیں تو ہمیں بلوچستان کی صورت حال سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ ہندوستان ‘ چین اور امریکا کی باہمی کھینچا تانی ایک طرف اور بعض مسلم ملک ایک طرف۔ تمام باخبر لوگ یہ جانتے ہیں لیکن خاموشی ہے۔ پاکستان شدید دہشت گردی کا شکار ہے۔لیکن مت بھولیے کہ کبھی کبھی قیمتی دھاتوں کے ذخائر ملکوں کو غیر مستحکم بنا دیتے ہیں۔ سوڈان کا حال سامنے رکھیے۔