پنجاب میں سیلاب اور اسموگ سے متاثرہ معصوم بچی عائشہ کی کہانی

عائشہ کی عمر صرف چودہ برس ہے مگر اس کی آنکھوں نے اتنا سیلاب اور اب آلودگی دیکھی ہے کہ زندگی کے رنگ ماند پڑ چکے ہیں۔

وہ لاہور کے علاقہ تھیم پارک میں اپنے گھر کی چھت پر کھڑی آسمان کی طرف دیکھتی ہے تو اسے سورج نہیں، صرف زرد دھند دکھائی دیتی ہے۔ سانس لینا مشکل ہے۔ عائشہ اُن لاکھوں پاکستانی بچوں میں سے ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اولین اور سب سے کمزور متاثرین ہیں۔

عائشہ کے گھر کی طرح سکول بھی حالیہ سیلاب میں تباہ ہو چکا ہے۔ اب وہ ایک عارضی عمارت میں پڑھتی ہے مگر اسے ڈر ہے کہ سموگ کے موسم میں کلاسیں پھر بند نہ ہو جائیں۔ عائشہ کہتی ہے میں پڑھنا چاہتی ہوں، مگر کبھی پانی آجاتا ہے تو کبھی سموگ ڈیرے ڈال لیتی ہے۔

کلینیکل سائیکالوجسٹ فاطمہ طاہر کہتی ہیں،ماحولیاتی تباہیوں کے باعث بے گھر ہونے اور معاشی عدمِ استحکام نے بچوں کی نفسیات کو شدید متاثر کیا ہے۔ ان کے مطابق سیلاب اور اسموگ سے متاثرہ علاقوں میں بے چینی، ڈپریشن اور صدمے کے بعد کے ذہنی دباؤ (پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس) کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ تقریباً نصف متاثرہ بچے نیند، توجہ اور اعتماد کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔

پاکستان کا موسم اب ایک بحران بن چکا ہے۔ درجہ حرارت کے نئے ریکارڈ، سیلاب کی غیر معمولی شدت اورا سموگ کے طویل موسم نے بچوں کی فطری معصومیت کو متاثر کیا ہے۔ لیکن قومی اور صوبائی سطح پر بننے والی بیشتر موسمیاتی پالیسیاں اب بھی توانائی، زراعت اور انفراسٹرکچر تک محدود ہیں۔ان میں بچوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

حیران کن بات تو یہ ہے کہ پنجاب میں بچوں کے حقوق کے نگران ادارے چائلڈپروٹیکشن بیورو اینڈویلفیئر بیورو کا ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچوں کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے کوئی کردار نظر نہیں آتاہے۔

سرچ فار جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر افتخار مبارک کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومتوں کو فوری طور پر بچوں پر مرکوز موسمیاتی ایکشن پلان بنانے چاہییں، جن میں واضح اہداف، ٹائم لائنز اور بجٹ مختص ہوں۔ وہ زور دیتے ہیں کہ ہمیں بیانات نہیں، نتائج درکار ہیں ۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ بچے بدلتے موسم میں کیسے زندہ رہیں، کیسے سیکھیں اور کیسے محفوظ رہیں۔

سماجی کارکن راشدہ قریشی کے مطابق موسمیاتی تبدیلی نہ صرف جسمانی بلکہ سماجی خطرات بھی بڑھا رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں، جب خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں تو بچے، خاص طور پر لڑکیاں، تشدد اور استحصال کے زیادہ خطرے میں آ جاتی ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں بچوں کے تحفظ اور موسمیاتی پالیسی کے فریم ورک الگ الگ چل رہے ہیں، جس کی وجہ سے بچے پالیسی سطح پر غیرمحفوظ رہ گئے ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں بچوں کی 36 فیصد بیماریاں ماحولیاتی عوامل سے جڑی ہیں۔ بہتر پانی، صاف ہوا، اور صفائی کے نظام میں سرمایہ کاری کے بغیر نہ بچوں کی صحت بچ سکتی ہے نہ مستقبل۔

فارمین کرسچن کالج یونیورسٹی کی ماہرِ پبلک پالیسی ڈاکٹر رابعہ چوہدری اس مسئلے کو پاکستان کی پالیسی ساخت کا ایک نظرانداز شدہ پہلو قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق ہم موسمیاتی تبدیلی کو اکثر سڑکوں، ڈیموں اور بجلی منصوبوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں، مگر انسانی اثرات خصوصاً بچوں پر پڑنے والے اثرات کو اہمیت نہیں دیتے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب تک حکومت، سول سوسائٹی اور تعلیمی ادارے مل کر تحقیق اور مکالمہ نہیں کریں گے، بچوں کے لیے حساس پالیسی سازی ممکن نہیں ہے۔

نالج مینجمنٹ ایکسپرٹ (یو این ڈی پی-ڈی ایچ ایل) شہرزاد امین، نے نیشنل کمیشن آن دی رائٹس آف چائلڈ (این سی آر سی) کے اسٹریٹیجک پلان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس منصوبے میں موسمیاتی تبدیلی کو کمیشن کے بنیادی کاموں میں شامل کیا گیا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ موسمیاتی اثرات سب پر یکساں نہیں ہیں ۔ بچیاں اور نوعمر لڑکیاں سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔

سیلاب اور آلودگی نے تعلیم اور صحت کی سہولتوں کو کمزور کیا ہے، جبکہ کم عمری کی شادیوں اور جبری مشقت کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ان کے مطابق لڑکیوں کو فیصلہ سازی میں شامل کیے بغیر کوئی پائیدار حل ممکن نہیں ہے۔

شام ڈھلنے پر عائشہ اپنی چھت سے نیچے اترتی ہے۔ فضا میں سموگ گہری ہو چکی ہے، مگر وہ اپنے ہاتھوں سے آسمان کی طرف اشارہ کرتی ہے، جیسے کوئی وعدہ یاد دلا رہی ہو۔ اگر سب لوگ مل کر کوشش کریں تو شاید کل کا آسمان نیلا ہو جائے، وہ کہتی ہے۔ شاید اس کی یہ سادہ امید وہ روشنی ہے جس سے ایک نئے، محفوظ پاکستان کا آغاز ہو سکتا ہے۔

Similar Posts