اس سال ہم نے چین سے امریکا تک دنیا کی بڑی طاقتوں کو برقی چپس اور نایاب معدنیات کے معاملات میں نبرد آزما دیکھا ۔ پھرتاریخ میں پہلی مرتبہ این ویڈیا کمپنی کے اثاثے ہم نے چار ٹریلیئن ڈالرز تک پہنچتے ہوئے دیکھے جو حقیقت میں ایک بھی مائیکروچپ نہیں بناتی بلکہ صرف تحقیق اور ڈیزائننگ کا کام کرتی ہے، پھر اسی ڈیزائن پر دنیا کی چند مشہور فاؤنڈریز لاکھوں کروڑوں مائیکروچپ بنا کر دیتی ہیں۔ ایک فاؤنڈری کے لیے وافر مقدار میں نایاب معدن، مہارت، خصوصی تجربہ گاہوں، بجلی اور وافر پانی کی ضرورت ہوتی ہے جو کروڑوں ڈالر کا نسخہ ہے۔
اسی این ویڈیا کا ‘فیب لیس’ (صفر مینوفیکچرنگ) کا تصور ہی پاکستان کے لیے مائیکروپروسیسر ڈیزائننگ کا عملی راستہ ہوسکتا ہے۔
آئی سی لیب کے کوریڈور کے ڈسپلے میں نمایاں ریسرچ پوسٹر اور پروٹوٹائپ جو اس ادارے کی کاوش ہیں۔ تصویر بشکریہ فاسٹ یونیورسٹی
مزید کھوج کے لیے ایکسپریس نے فاسٹ نیشنل یونیورسٹی فار کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسس(فاسٹ این یو سی ایس) کا دورہ کیا۔ یہاں انٹی گریٹڈ سرکٹ ڈیزائن (آئی سی ڈی) لیب میں نہ صرف مائیکروچپ پر تحقیق جاری ہے بلکہ یہاں نوجوان انجینئرز کو تعلیم و تربیت بھی فراہم کی جارہی ہے۔
ایک کمرے سے ابتدا
فاسٹ یونیورسٹی کے روشن دالان سے گزریں تو دیواروں پرتحقیقی پوسٹر اور مائیکروپروسیسر کے پروٹوٹائپ نظر آئیں گے جو ڈاکٹر راشد رمضان اور ان کی ٹیم کی کاوش ہیں۔ لیکن اس کی شروعات صرف ایک کمرے سے ہوئی تھی جو اب ایک بڑی تجربہ گاہ بن چکی ہے۔
جامعہ انجینئرنگ و ٹیکنالوجی، لاہور سے گریجویشن کے بعد ڈاکٹر راشد رمضان نے اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی، امریکا کی وی ایل ایس آئی لیب سے چپ ڈیزائننگ شروع کی۔ 2003 میں رائل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، اسٹاک ہوم سے الیکٹرانکس انجینئرنگ میں ماسٹرز کیا۔
ان کا اگلا علمی پڑاؤ سویڈن کی جامعہ لنشوپنگ تھی جہاں سے ڈاکٹریٹ مکمل کی۔ ڈاکٹر راشد رمضان عرب امارات، سویڈن، جرمنی، امریکا اور پاکستان کی صنعتوں اور جامعات میں چپ ڈیزائننگ کا 25 سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔
2018 میں وہ فاسٹ یونیورسٹی فارکمپیوٹر اینڈ نیو ایمرجنگ سائنسِس سے وابستہ ہوئے۔ یہاں ایک چھوٹۓ سے کمرے اور ماسٹرز کے دس طلبا و طالبات کے ساتھ انہوں نے مائیکروالیکٹرانکس، آرایف سرکٹس، الیکٹرومیگنیٹکس اور پی سی بی ڈیزائن کی درس وتدریس کی ابتدا کی۔
ڈاکٹر راشد رمضان کی تجربہ گاہ میں لگے دھاتی سائن بورڈ جو بین الاقوامی ایجادات اور پیٹنٹس کا احوال ظاہر کرتے ہیں۔ فوٹو بشکریہ فاسٹ یونیورسٹی
“2018 میں عملی طور پر ہمارے پاس صرف ایک کمرہ تھا جو دفتر اور تجربہ گاہ تھا۔ اس کے باوجود، مجھے پورا یقین تھا کہ اگرکامیابی چاہئیے تو اس ٹیکنالوجی کو لازمی اپنانا ہوگا۔ اب اللہ کا کرم ہے کہ ہم پر نئے در کھل رہے ہیں،” ڈاکٹر راشد نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔
فاسٹ یونیورسٹی بھی ایک مستقبل بین بینکر، آغا حسن عابدی کا خواب تھی۔ انہوں نے 80 کے دہائی میں 10 کروڑ روپے کی رقم سے اس کی بنیاد رکھی۔ فاسٹ میں آئی سی ڈیزائننگ کا سفر بھی اسی طرح جاری رہا، تاہم اس دوران ہر نیا دن سیمی کنڈکٹر اور آئی سی ٹیکنالوجی کی اہمیت بڑھا رہا ہے۔
پاکستان اور فیب لیس تدبیر
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں کمپیوٹر چپ کی مکمل تیاری (فیبریکیشن یا فیب) ممکن ہے؟
“کئی وجوہ کے تحت یہ ایک مشکل ترین امر ہے کیونکہ کمرشل پیمانے پر اعلیٰ درجے کی کئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ سال کے 365 دن اور مسلسل 24 گھنٹے بلاتعطل بجلی، خاص انفرااسٹرکچر اور صاف پانی کی وسیع مقدار درکار ہوتی ہے،” ڈاکٹر راشد نے بتایا۔
“تکنیکی طور پر اربوں ڈالر کے جدید آلات درکار ہوتے ہیں جن میں ایڈوانسڈ فوٹولِتھوگرافی مشین، ایچنگ اور آئن امپلانٹیشن جیسے سیٹ اپ شامل ہیں۔ ان مشینوں کو رکھنے کے لئے صاف ترین کمرے اورپیچیدہ ویکیوم ماحول ضروری ہوتا ہے۔ پھران آلات کو چلانے کے لیے لگ بھگ 60 مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے خاص انجینئروں اور ٹیکنیشن کی ایک ٹیم درکار ہوتی جو مرحلہ وار کام کرتی رہتی ہے۔ ان میں سول، مکینکل، الیکٹریکل، کیمیکل، آپٹیکل اور ویکیوم ٹیکنالوجی صرف چند نام ہیں،ٗ ڈاکٹر راشد نے کہا۔
پھران چپس کی تیاری کے لیے نایاب معدن، قیمتی کمیاب دھاتوں، کیمیائی اجزا اور دیگر لاتعداد اشیا کی مسلسل اور بلارکاوٹ فراہمی سے ہی یہ کام ممکن ہوسکتا ہے۔
‘ عالمی مارکیٹ میں شدید مسابقت ہے جو ہماری مصنوعات کی فروخت میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ بڑی کمپنیاں پہلے ہی اپنی ساکھ کے ساتھ موجود ہیں اور اس صورتحال میں کسی نئی کمپنی کے لیے جگہ بنانا ایک چیلنج ہوگا، اس تناظر میں پاکستان کے لیے چپ سازی پر تحقیق اور ڈیزائننگ ہی سب سے سودمند راہ ہے،” ڈاکٹر راشد نے ایکسپریس سے کہا۔
یہی وجہ ہے کہ تجارتی مائیکروچپس کے میدان میں چند بڑے کھلاڑیوں کا راج ہے جو پاکستان کی دسترس سے باہر ہے۔ ان میں سب سے اہم نام، تائیوان سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کمپنی (ٹی ایس ایم سی) کا ہے جو 70 فیصد مارکیٹ رکھتی ہے۔ یہ کمپنی ایپل، این ویڈیا اور اے ایم ڈی جیسے بڑے اداروں کے لیے 3 اور 5 نینومیٹر تک کی چپس تیار کرتی ہیں۔
اس کے برعکس مشہور این ویڈیا کمپنی ایک چپ بھی نہیں بناتی اور محض اپنے علم کی بنیاد پرگرافک پروسسنگ یونٹس (جی پی یو) بناتی رہی اور اب وہ جدید ترین اے آئی پروسیسر ڈیزائن کررہی ہے۔ صرف تحقیق و ڈیزائن پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ٹی ایس ایم سی ہزاروں، لاکھوں چپس بنادیتی ہے۔
ڈاکٹر راشد نے 2009 میں اس کی بنیاد ڈالی لیکن کامیابی نہ ہوئی، پھر وہ کچھ برس کے لیے متحدہ عرب امارات چلے گئے۔
2018 میں وہ پاکستان لوٹے تو ‘نیشنل الیکٹرانکس کمپلیکس آف پاکستان’ (نیکوپ) جیسے اداروں کو تربیت یافتہ انجینئروں کی ضرورت تھی جو آئی سی ڈیزائن کرسکیں۔
اسی برس فاسٹ یونیورسٹی اور نیکوپ کے اشتراک سے پاکستان میں آئی سی ڈیزائن کے پہلے ماسٹرپروگرام کا اجرا ہوا۔ سات ہزار گریجویٹس میں سے 24 انجنیئرمنتخب ہوئے اور ملک میں علم پرمبنی آئی سی ڈیزائن تدریس کی بنیاد رکھی گئی۔
‘ماضی کے برخلاف اب پوری دنیا میں یہ میدان موزوں اور ہموار ہوچکا ہے۔ بس آپ کو تخلیقی قوت، کمپیوٹر، چند سافٹ ویئر، جذبہ و امید اور سیاسی عزم چاہئے،” انہوں نے کہا۔
چپ ڈیزائن
متحدہ عرب امارات میں 2012 سے 2018 کا دور ڈاکٹر راشد کے لیے ثمرآوررہا جہاں انہوں نے تحقیق و تجربے کی عملی مراحل عبور کئےاور بین الاقوامی پیٹنٹ حاصل کرتے ہوئےعالمی تجربہ حاصل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ چپ ڈیزائننگ میں نظری (تھیوری) علم ناکافی جبکہ عملی تجربہ ضروری ہوتا ہے۔
فاسٹ، چپ ڈیزائننگ لیب میں تحقیق کے بعد ڈیزائن کی گئی مائیکروچپ۔ تصویر بشکریہ فاسٹ یونیورسٹی
“جیسے آپ جراحی کی کتب پڑھ کر سرجن نہیں بن سکتے ہیں عین اسی طرح چپ ڈیزائننگ کی تھیوری ناکافی ہوتی ہیں تو لازمی ہے کہ ماہر سے اس کی عملی تربیت حاصل کی جائے،” انہوں نے بتایا۔
پاکستان، بین الاقوامی اسٹیج پر
2021 میں انٹرنیشنل سالڈ اسٹیٹ سرکٹس سوسائٹی (ایس ایس سی ایس) نے سالانہ پلیٹ فارم برائے ڈیزائن آؤٹ ریچ (پی آئی سی او) کے نام سے آئی سی ڈیزائن کے مقابلے کا اجرا کیا۔ فاسٹ آئی سی لیب نے ہر سال اس کے مقابلوں میں حصہ لیا اور اب تک 44 میں سے 17 ایوارڈ و اعزازات اپنے نام کئے ہیں، جو کل انعامات کا 30 فیصد ہے۔ بقیہ ایوارڈ جیتنے والوں میں امریکہ، فرانس، جنوبی کوریہ، مصر، برازیل اور دیگر ممالک شامل ہیں۔
ان شاندار کامیابیوں کی بدولت یہ تجربہ گاہ عالمی افق پر کامیابی سے نمودار ہوئی اور پاکستان کی ترجمانی بھی کی۔
عمان کے انجنیئر اور جی ایس ایم ای
برسوں کی محنت اور علمی مشقت کا دوسرا صلہ اس وقت ملا جب امریکی ’گلوبل سیمی کنڈکٹر مائیکروالیکٹرانکس (جی ایس ایم ای)‘ نے اومان میں اپنے نئے ڈیزائن سینٹر کے لیے فاسٹ یونیورسٹی سے رابطہ کیا۔ یہاں بھی لیب کا مقابلہ بڑی بین الاقوامی کمپنیوں اور اداروں سے رہا اور آخرکار فاسٹ یونیورسٹی کو کانٹریکٹ مل گیا۔ تربیتی پروگرام کے تحت عمان کے 100 انجینئرز کو ابتدا سے آخر تک کلاس روم تربیت، تھیوری اورمائیکروچپ ڈیزائننگ کی عملی تربیت فراہم کی گئی۔ یہ چپس ٹی ایس ایم سی نے بنائیں اور حتمی طور پر انہیں ٹیسٹ کیا گیا۔ واضح رہے کہ یہ تمام علمی و عملی مراحل کسی بھی آئی سی ڈیزائنر کے لیے انتہائی ضروری ہوا کرتے ہیں!
ٹریننگ میں تمام طلباوطالبات کو سخت معیارات سے گزارا گیا۔ صبح کو لیکچر اور دوپہر میں لیب کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ اس نظم وضبط کے نتیجے میں ایک سال بعد نو پروجیکٹ مکمل کئے گئے جن میں 65 نینومیٹر کی دو سی ایم او ایس ڈائیز شامل ہیں جنہیں ٹی ایس ایم سی نے ڈھالا۔ اسی ٹیم نے اومان جاکر ملک کا پہلا چپ ڈیزائن سینٹر قائم کیا جو تین سال بعد آج بھی کامیابی سے کام کررہا ہے۔
پھر اس کامیابی سے متاثرہوکر جی ایس ایم ای، پاکستان میں پہلے چپ ڈیزائن سیںٹر کے لیے مالی تعاون پر آمادہ ہوئی جو فاسٹ این یو سی ایس کی اہم کامیابی ہے۔
‘جی ایف – ایم ای ٹی آر سی کے نام سے یہ اب یہ سینٹر مکمل فعال ہے اور پاکستان کی صنعتوں کی مدد کرتے ہوئے کئی منصوبے کامیابی سے مکمل کرچکا ہے،”ڈاکٹر رمضان نے کہا۔
نئی نسل کی تربیت
ابتدا میں فاسٹ اور نیکوپ کے درمیان ٹریننگ پروگرام شروع کیا گیا، جس کے بعد 2023 میں جی ایس ایم ای نے فنڈ فراہم کئے۔
‘اس دوران بہت مشکلات آئیں اور مالی وسائل گویا خشک ہوگئے یہاں تک کہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں یہ پروگرام بند نہ ہوجائے۔ تاہم اس وقت ہمارے مخیر دوستوں، بیرونِ ملک پاکستانیوں اور یوای ٹی لاہور کے المنائی کی مالی مدد سے علم کی شمع جلتی رہی۔
اس چیلنج کے بعد 2025 بہت موافق ثابت ہوا۔ اول تو حکومت کو اس اہم شعبے کا احساس ہوا اوراگنائٹ پروگرام کے ذریعے وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی (ایم آئی اوٹی) سے فنڈنگ ملی۔ اس کے تحت 33 انجینئروں کو ایک برس تک آئی سی ڈیزائن کی تربیت دے کر ایم ایس تک تعلیم دی جائے گی۔ پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ (پی ایس ای بی) کی جانب سے ایک اور مختصرتربیتی پروگرام شروع کیا گیا ہے۔
کارواں بنتا گیا
2018 میں پاکستان میں مائیکروچپ ڈیزائن ویری فکیشن کی صرف ایک کمپنی تھی اور اب کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں کم سے کم ٍ18 کمپنیاں موجود ہیں۔ ان میں سے صرف فاسٹ یونیورسٹی نے آئی ڈیزائن کے 100 ماہرین پاکستان کو دیئے ہیں۔ چند بیرونِ ملک پی ایچ ڈی بھی کررہے ہیں، باقی مقامی کمپنیوں سے وابستہ ہیں۔
افرادی قوت کی قلت
اگرچہ پاکستان نے اس شعبے میں پراعتماد سفر شروع کیا ہے لیکن اسے مزید وسعت دینے اور افرادی قوت کی تیاری میں کئی رکاوٹیں حائل ہیںَ۔
‘کوئی بھی کثیرالقومی کمپنی اگر پاکستان میں چپ ڈیزائن سینٹر کھولنا چایےتو اس کے لیے 1000 سے 1500 انجینئر درکار ہوں گے۔ اب پورے پاکستان میں اس شعبے کے 1000 افراد ملیں گے۔ ویت نام ان دنوں آئی سی ڈیزائن کمپنیوں کا مرکزِ نگاہ ہے۔ تو ویت نام کی طرح ہمیں 10 ہزار انجینئروں کا پول بنانا ہوگا تاکہ ہم این ویڈیا، اے ایم ڈی اور ٹی آئی کمپنیوں کو بلاسکیں اور وہ ان میں سے 10 فیصد بہترین ٹیلنٹ منتخب کرکے کمپنی کھول سکیں۔ فی الحال ہم اس کم ترین معیار سے بھی کوسوں دور ہیں،ٗ ڈاکٹر راشد رمضان نے کہا۔
اگرچہ بیرونِ ملک پاکستان اے ایم ڈی اور الٹیرا جیسے اداروں میں ایگزیکٹو عہدوں پر کام کررہے ہیں لیکن جب تک ہم گھر میں اپنی افرادی قوت نہیں بڑھاتے اس وقت تک عالمی کمپنیوں کو راغب کرنا ایک خواب ہی رہے گا۔
پاکستان میں انٹیلیکچوئل پراپرٹی (آئی پی) قوانین میں سقم
پاکستان میں انٹیلیچکوئل پراپرٹی (آئی پی) یا علمی حقِ ملکیت کے قوانین اس ضمن میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ دوسری جانب ایسے وکلا کا فقدان ہے جو اعلیٰ ٹیکنالوجی کی آئی پی سے وابستہ قوانین پرگرفت نہیں رکھتے ہیں کیونکہ حقِ ملکیت سے وابستہ کلچرکا فروغ ہی نہیں ہوپایا ہے۔
“ایک ایجاد یا پیٹنٹ کا حقِ ملکیت دسیوں لاکھوں روپے کی قدر رکھتا ہے اور اس ضمن میں ہمیں سخت اور واضح قوانین بنانا ہوں گے،” ڈاکٹر راشد نے ایکسپریس کو بتایا۔
پیٹنٹس، ایجادات اور اختراعات
کئی اقسام کے نشیب وفراز کے باوجود فاسٹ تجربہ گاہ نے جدید ٹیکنالوجی کی حامل امریکی پیٹنٹس بھی اپنے نام کرائی ہیں۔ ان میں ویکسین کے درجہ حرارت کی خبر دینے والے کم خرچ مانیٹرنگ سسٹم، ایندھن کے ٹنکیوں پر نظر رکھنے والے حساس سینسر، فائیو جی اور سکس جی ڈپلیکسرز صرف چند نام ہیں۔ یہ ایجادات بتاتی ہے کہ پاکستان میں نامساعد حالات کے باوجود ہم اس شعبے میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔
” اگر پاکستان ہائی ٹیکنالوجی فیب لیس چپ ڈیزائننگ کی راہ اپنانا چاہتا ہے تو اسے اعلیٰ ترین تربیت کی بنیاد پر ڈیزائن سینٹر بنانا ہوں گے۔ اگر بیروزگار ماہرین سازی سے بچنا اور کامیاب اسٹارٹ اپس قائم کرنے ہیں تو یہی ماڈل کارگر ہے۔ حکومت کو سوویت ماڈل کی بجائے نجی شعبے کو فعال کرنا ہوگا،” انہوں نے کہا۔
فاسٹ کے بہترین دماغ
مائیکروچپ ڈیزائننگ فردِ واحد کا کام نہیں بلکہ پوری ٹیم کی مشترکہ کاوش ہے۔
فاسٹ یونیورسٹی کی عمارت کے باہر نوجوان انجینیئر، اساتذہ اور دیگر ماہرین کا گروپ فوٹو۔ فوٹوَ بشکریہ فاسٹ یونیورسٹی
جس طرح اربوں ٹرانسسٹر یکجان ہوکر آپ کے فون اور کمپیوٹر کو چلاتے ہیں عین اسی طرح چپ ڈیزائننگ بھی فردِ واحد کے بجائے ایک مشترکہ ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔ آئی سی ڈیزائن سینٹر نے جتنی بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ سینکڑوں انجینئروں کی سات سالہ انتھک محنت کے ثمرات ہیں۔
اس شعبے کے ابتدائی ماہرین میں ڈاکٹر حسن سیف، محمد عمر، حمزہ عتیق ، علی صابر جیسے ماہرین نے ایک مشترکہ مقصد کے لیے دن رات محنت کی جن کی بدولت آج دنیا بھر میں اس تجربہ گاہ کا نام گونج رہا ہے۔
اس سفر میں ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ کی غیرمشروط مدد کے ساتھ ساتھ الیکٹریکل انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ، کیمپس ڈائریکٹر بالخصوص ڈاکٹر آفتاب معروف اور ڈاکٹر وسیم اکرام نے بھی شاندار کردار کیا۔
فاسٹ یونیورسٹی کی عمارت کے باہر نوجوان انجینیئر، اساتذہ اور دیگر ماہرین کا گروپ فوٹو۔ فوٹوَ بشکریہ فاسٹ یونیورسٹی
روڈ میپ
پاکستان نے آہستہ روی سے چپ ڈیزائننگ کی شاہراہ پر قدم رکھا جس کی رفتار بتدریج بڑھ رہی ہے۔ اب مہارت و تجربے میں اضافے، نجی شعبے میں نئی کمپنیوں اور پارٹنر شپ سے ہم عالمی سیمی کنڈکٹر کی دوڑ میں شامل ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
تاہم مؤثر آئی پی قوانین، افرادی قوت پر توجہ اور سرمایہ کاری، نجی شعبے کے فروغ اور مسلسل حکومتی سرپرستی نہ ملے تو یہ ترقی بھی مسدود ہوکر رہ جائے گی۔ اختراعات کے بیج بوئے جاچکے ہیں، کونپلیں بھی پھوٹ رہی ہیں لیکن حتمی فصل کا انحصار اس امر پر ہے کہ ہم اس کی آبیاری کس طرح کرتے ہیں اور کس طرح جوان ذہانت کو استعمال میں لاتے ہیں۔