غزہ میں کوئی بھی انسانی شکار کھیل سکتا ہے

اگر آپ یہودی نہیں ہیں مگر صیہونی نظریے کے حامی ہیں اور آپ کی عمر اٹھارہ تا چوبیس برس ہے تو آپ اسرائیلی فوج میں چودہ ماہ تک غیر عسکری شعبوں میں خدمات انجام دے سکتے ہیں۔اگر آپ دوہری شہریت کے حامل ہیں (یعنی اسرائیلی شہریت کے ساتھ کسی اور ملک کے بھی شہری ہیں)۔ تب آپ اسرائیلی قانون کے تحت تین سال کی لازمی فوجی خدمات کے لیے پابند ہیں۔

اس وقت اسرائیلی فوج میں دوہری شہریت کے حامل بارہ سو امریکی ، ایک ہزار اطالوی ، لگ بھگ ایک سو برطانوی ، بیسیوں فرانسیسی اور درجنوں جنوبی افریقی شہری خدمات انجام دے رہے ہیں۔سات سے دس ہزار وہ فوجی ہیں جو اسرائیل سے باہر پیدا ہوئے۔ اسرائیلی فوج میں شامل کئی غیر ملکی شہریوں کی غزہ میں موت بھی ہوئی ہے اور زخمی بھی ہوئے ہیں۔

گزشتہ برس اکتوبر میں فلسطینی نژاد اسرائیلی صحافی یونس تراوی نے فوج میں شامل غیر ملکی نشانہ بازوں ( سنائپرز ) کی سرگرمیوں پر ایک چونکا دینے والی دستاویزی فلم ریلیز کی۔اس کے بعد کچھ ممالک میں ان نشانہ بازوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع ہو گئی۔

ان نشانہ بازوں کا تعلق غزہ میں متحرک تھرٹی فائیو ایربورن انفنٹری ڈویژن کی نائنتھ پلاٹون میں شامل ٹو زیرو ٹو بٹالین کے گھوسٹ یونٹ سے تھا۔اس یونٹ میں لگ بھگ بیس غیر ملکی شہریت رکھنے والے سنائپرز شامل تھے۔ان میں سے چھ نشانچیوں نے نومبر دو ہزار تئیس تا فروری دو ہزار چوبیس کے چار ماہ میں خان یونس کے ناصر اسپتال اور غزہ سٹی کے القدس اسپتال کے اردگرد کے عمارتی کھنڈرات میں مورچے لگا کے نہتے شہریوں کا تاک تاک کے شکار کیا۔فلم پروڈیوسر نے دوہری شہریت رکھنے والے سات نشانچیوں کو شناخت کیا۔ان میں امریکا سے آنے والا ڈینیل راب ، بلجئیم کا ایلن بین سیرا ، جنوبی افریقہ کا ایلن بیہاک ، اٹلی کا رافیل کاجیا ، جرمنی کا ڈینیل گریٹز ، فرانس سے آنے والا ساشا بی اور گیبریل بی ایچ شامل ہیں۔

فلم پروڈیوسر نے امریکی سنائپر ڈینیل راب کا یہ کہہ کر انٹرویو کیا کہ اس کی شناخت ظاہر نہیں کی جائے گی اور یہ فلم غزہ کے مشکل حالات میں اسرائیلی فوج کو درپیش چیلنجز اور کارکردگی کے موضوع پر بنائی جا رہی ہے۔ڈینیل کا تعلق شکاگو سے ہے۔وہ باسکٹ بال کا کھلاڑی اور یونیورسٹی آف الی نوائے سے بائیولوجی گریجویٹ ہے۔

 اس نے بتایا کہ نائنتھ پلاٹون میں شامل ہمارا یونٹ اپنے فیصلوں میں خاصا خود مختار تھا۔ہم نے چار چار کی ٹولیوں میں کام کیا۔میرے ساتھ جرمنی کے شہر میونخ سے تعلق رکھنے والا ڈینیل گریٹز تھا۔ہم دونوں نے غزہ سٹی کے القدس اسپتال کے قریب منیر الرئیس اسٹریٹ کی ایک کثیر منزلہ عمارت میں مورچہ بنایا اور نیچے سڑک پر ایک تصوراتی لکیر کھینچ دی کہ جو بھی اسے پار کرے گا اسے دشمن سمجھ کے مار دیا جائے گا۔

دونوں سنائپرز نے بائیس نومبر دو ہزار تئیس کو چھ افراد کو نشانہ باندھ کے ہلاک کیا۔ان میں سے چار کے بارے میں بعد میں پتہ چلا کہ ان کا تعلق ایک ہی خاندان دوگماش سے تھا۔اس خاندان کے دو بھائی کچرا اور پلاسٹک چن کر گھر والوں کا پیٹ پالنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔

ڈینیل راب نے بتایا کہ سب سے پہلے ہم نے چھبیس سالہ محمد دوگماش کا نشانہ لیا۔جب اس کے چھوٹے بھائی انیس سالہ سالم دوگماش نے بھائی کی لاش اٹھانے کی کوشش کی تو میں نے اس کا بھی نشانہ لیا۔جب ان دونوں کا والد منتصر بھاگابھاگا آیا تو میرے ساتھی نے اس کو ہدف بنایا۔منتصر شدید زخمی ہوا اور اگلے دن مر گیا۔اس کے بعد ہم نے منتصر کے کزن خلیل کا نشانہ لیا اور اس کا بازو شدید زخمی ہو گیا۔

چنانچہ گلی میں پڑی لاشیں اٹھانے گزشتہ روز تک پھر کوئی نہیں آیا۔ایک اور سنائپر نے سینتالیس سالہ فرید کو مارا۔یہ دوگماش خاندان کا دور کا رشتہ دار تھا۔راب نے بتایا کہ دو دن میں ہم نے منیر الرئیس اسٹریٹ پر آٹھ لوگ مارے۔ان میں سے چھ دوگماش خاندان سے تھے۔راب نے بتایا کہ ہمارے گھوسٹ یونٹ نے غزہ میں اپنی تعیناتی کے دوران ایک سو پانچ لوگوں کو مارا۔

راب کے انٹرویو سے یہ بھی پتہ چلا کہ علاقے میں موجود کوئی بھی فوجی کمانڈر اچانک کسی گلی یا آدھی گلی کو فوجی زون قرار دیتا ہے مگر علاقے کے مکین اس بات سے لاعلم رہنے کے سبب اس زون میں نادانستہ طور پر داخل ہوتے ہیں اور مارے جاتے ہیں۔حالانکہ اسرائیلی فوج کے ضابطہ اخلاق میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ کوئی لاش اٹھانے والا یا کسی زخمی کی مدد کرنے والا غیر مسلح شخص جائز فوجی ہدف نہیں۔

دوگماش خاندان اور دیگر نہتے فلسطینیوں کی ہلاکت کے لمحات کی ڈرون فوٹیج اس واقعہ کے تقریباً پانچ ماہ بعد ایک اسرائیلی فوجی شالوم گلبرٹ نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کردی اور پھر یہ وائرل ہو گئی۔

جب ان سنائپرز کے بارے میں دستاویزی فلم گزشتہ سال اکتوبر میں ریلیز ہوئی تو اس کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں نے مشترکہ طور پر ان چھ نشانچیوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے قانونی چارہ جوئی شروع کر دی جن کا اس فلم میں تذکرہ ہوا ہے ۔تاہم ایسے جرائم کی سماعت کی مرکزی جگہ جنگی جرائم کی بین الاقوامی عدالت ہے۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل یہ عدالت سرے سے تسلیم نہیں کرتا اور امریکا نے اس عدالت کے ججوں پر تادیبی پابندیاں لگانے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ہاں اگر یہی نشانچی اسرائیل کے بجائے داعش جیسے کسی گروپ میں شامل ہو کر اپنی اپنی ریاستوں میں واپس جاتے تو ان کی شہریت بھی منسوخ ہو سکتی تھی۔

فرض کریں اسرائیلی فوج کے گھوسٹ یونٹ کے ان چھ نشانچیوں کا تمام ثبوتوں کے ساتھ عالمی عدالت میں مقدمہ چلے۔تب بھی کون جانتا ہے کہ فیصلہ دس برس میں آئے گا یا پندرہ برس بعد ؟

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

Similar Posts