بنگلہ دیش کی معزول سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کو گزشتہ سال اگست میں طلبہ کی احتجاجی تحریک کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔ شیخ حسینہ کو یہ سزا ان کی غیر حاضری میں سنائی گئی، کیونکہ ان دنوں وہ بھارت میں پناہ گزین ہیں۔
حسینہ اس وقت بھارت میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں اور بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے فوری طور پر ان کی بھارت سے حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔ حسینہ کے سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بھارت میں ہیں۔
ڈھاکہ کی وزارتِ خارجہ نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ حسینہ اور اسدالزمان کو فوری طور پر بنگلہ دیش کے حوالے کیا جائے۔
بنگلہ دیشی وزارت خارجہ نے کہا کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان موجود دو طرفہ حوالگی کے معاہدے کے تحت یہ ایک لازمی ذمہ داری ہے۔ علاوہ ازیں، کسی شخص کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے جرم میں سزا یافتہ ہونے کے باوجود پناہ دینا ”غیر دوستانہ“ اور انصاف کی خلاف ورزی تصور کی جائے گی۔
شیخ حسینہ کو سزا کے خلاف اپیل کا موقع نہ دیے جانے کا امکان کیوں ہے؟
بھارت نے ڈھاکہ کی عدالت کے فیصلے کو نوٹ کرتے ہوئے کہا کہ وہ بنگلہ دیش میں امن، جمہوریت اور استحکام کے پیشِ نظر تمام اسٹیک ہولڈرز سے تعمیری رابطہ قائم رکھے گا۔
بھارتی وزارتِ خارجہ نے حوالگی کے حوالے سے کسی واضح جواب سے گریز کیا اور صرف کہا کہ بھارت بنگلہ دیش کے عوام کے بہترین مفاد میں کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
شیخ حسینہ کو پانچ سنگین الزامات میں سزا سنائی گئی ہے، جن میں طلبہ مظاہرین کے خلاف ہیلی کاپٹر، ڈرونز اور ہتھیار استعمال کر تے ہوئے قتل و غارت گری کے احکامات دینا شامل ہیں۔ عدالت نے انہیں 5 اگست کے روز ڈھاکہ کے چندرخپل علاقے میں چھ مظاہرین کی ہلاکت کے جرم میں موت کی سزا سنائی۔
شیخ حسینہ نے الزامات کو “غیر منصفانہ اور سیاسی طور پر متعصب“ قرار دیا اور کہا کہ وہ اور اسدالزمان خان ”نقصان کو کم کرنے کے نیت سے عمل کر رہے تھے۔“
کیا بھارت حسینہ کو بنگلہ دیش کے حوالے کرے گا؟
بھارتی قانون اور دو طرفہ معاہدہ شیخ حسینہ کی حوالگی کو مسترد کرنے کا اختیار دیتے ہیں، خاص طور پر اگر الزامات سیاسی یا غیر منصفانہ قرار دیے جائیں۔
2013 میں بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان حوالگی معاہدہ (ایکسٹراڈیشن ٹریٹی) طے پایا، جسے 2016 میں اپ ڈیٹ کیا گیا تاکہ مطلوب افراد کا تبادلہ آسان ہو۔ معاہدے کے تحت حوالگی کے لیے ”دوہری مجرمانہ ذمہ داری“ کی شرط ہے، یعنی جرم دونوں ممالک میں قابلِ سزا ہونا چاہیے۔
معاہدے کی دفعہ 8 کے تحت اگر ثابت ہو کہ حوالگی کا مطالبہ ”ناانصافی یا ظلم پر مبنی“ ہے، تو بھارت اسے مسترد کر سکتا ہے۔ اسی طرح، دفعہ 6 کے تحت سیاسی نوعیت کے جرائم کی بنیاد پر بھی حوالگی روکنے کی گنجائش ہے، تاہم قتل، اغوا، دہشت گردی جیسے سنگین جرائم سیاسی قرار نہیں دیے جا سکتے۔
بھارت کا ایکسٹرڈیشن ایکٹ 1962
بھارت کے اس قانون کے تحت حکومت کو اختیار ہے کہ حوالگی کا مطالبہ رد، مؤخر یا معطل کرسکے۔ خاص طور پر اگر یہ مطالبہ ”غیر سنجیدہ، نیک نیتی کے بنا یا سیاسی مقاصد کے لیے“ ہو۔ اس قانون کے تحت بھارت کسی بھی وقت کارروائی کو روک سکتا ہے یا متعلقہ شخص کو چھوڑ سکتا ہے۔
مذکورہ بالا قواعد اور قوانین کو دیکھا جائے تو بھارت شیخ حسینہ کی حوالگی کی درخواست مسترد کرنے کے تمام قانونی اختیارات رکھتا ہے، اور امکان کم ہے کہ نئی دہلی انہیں بنگلہ دیش کے حوالے کرے، کیونکہ الزامات سیاسی نوعیت یا انصاف کے لحاظ سے متنازع قرار دیے جا سکتے ہیں۔
